آنکھوں دیکھا حال

بہت بڑی دنیا کے ایک چھوٹے سے شہر میں بڑی چہل پہل تھی، سارے شہر کی نظر یں کبڈی میچ کی طرف لگی ہوئی تھی۔ اس شہر میں گھڑی اور پہیہ صدیوں سے ایک ہی سمت میں چل رہا تھا ان دنوں نااہل پہلوان کو پے در پے شکست ہورہی ہے، ایک بار تو اسے رِنگ سے اٹھا کر ہی باہر پھینک دیا گیا، اس لئے اندازہ یہی تھا کہ نااہل پہلوان کو طاقت پہلوان پہلے ہی ہلے میں گردن پر’’کسوٹا،، مار کر گرادے گا مگر نااہل پہلوان میچ شروع ہونے کے بعد’’کسوٹے،، کا تعارفی وار ہونے کے باوجود جم کر کھڑا رہا۔ اب طاقت پہلوان نے استادی دائو ’’کرنگا،، لگایا نااہل پہلوان کی ٹانگیں اوپر اور سر نیچے کرکے اسے جکڑ لیا۔ اس دائو میں مخدوم خسرو بختیار، رضاحیات ہراج اور ڈاکٹر نثار کا اشارہ بھی شامل تھا مگر نااہل پہلوان کے پٹھے بڑے پکے نکلے وہ بھی رِنگ سے باہر کھڑے ہو کر ہلہ شیری کررہے تھے، پہلوانی دائو پیچ میں ’’کرنگے،، کے ذریعے دونوں حریفوں کو برابر کا موقع حاصل ہوتا ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ حریف کا وار کیسے سہا جاتا ہے۔ نااہل پہلوان نے’’کرنگے،، میں وہ دائو کھیلا کہ بازی گروں کی طرح دونوں پہلوانوں کے سر نیچے اور ٹانگیں اوپرہوئیں، دونوں ایک دم دھڑام سے نیچے گرے، تماشائیوں میں کنفیوژن پیدا ہوا کہ آگے کیا ہوگا؟ مگر نااہل پہلوان گرتے ہوئے بھی گھٹنوں کے بل گرا اور گرتے ہی برق رفتاری سے اٹھ کھڑا ہوا۔ تماشائیوں کو یقین تھا کہ طاقت پہلوان آج اسمبلی میں نااہل پہلوان کی وہ درگت بنائے گا کہ اس کے ساتھ نہ ریاض پیر زادہ ہوں گے اور نہ اویس لغاری نہ چودھری نثار علی کی حمایت ہوگی اور نہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی پس پردہ حمایت، نہ پنجاب حکومت زور لگائے گی اور نہ وزیر اعظم عباسی چاہیں گے کہ نااہل پہلوان جیت جائے۔ اس لئے اندازہ تھا کہ زرداری اور عمران کی تحریک کامیاب ہوگی اور نااہل پہلوان کو سیاسی شکست ہوگی۔ اگلا رائونڈ شروع ہوا تو طاقت پہلوان نے’’دستی،، کھینچنے والا دائو کھیل کر نااہل پہلوان کو زیر کرنا چاہا مگر یہ دائو اسے مہنگا پڑا۔ طاقت پہلوان کو اصل میں یہ یقین تھا کہ نااہل پہلوان کی ٹیم کو دیمک لگ چکا، اداروں کے دبائو اور ذاتی مفادات نے نااہل کو کھوکھلا کردیا ہے۔’’دستی،، کے دائو سے نااہل پہلوان کھینچتا چلا آئے گا۔ طاقت پہلوان کو یہ بھی امید تھی کہ چودھری نثار اور بھائی شہباز بھی دبکے بیٹھے رہیں گے مگر یہ بڑے گھاگ ہیں نئے حالات میں بدل کر نااہل پہلوان کے حمایتی بن گئے اسی لئے پہیہ الٹا گھومنا شروع ہوگیا۔ ہتھ جوڑی میں جو کبھی نہیں ہوا تھا وہ ہوگیا، وہ جس کی توقع نہیں تھی، وہ کس طرح ہوگیا؟ طاقت پہلوا ن نے’’دستی،، کا وار کیا تو پنڈال میں سناٹا چھاگیا ہر ایک کو یقین تھا کہ نااہل پہلوان یہ وار سہہ نہیں سکے گا مگر طاقت پہلوان کو یہ دائو مہنگا پڑا، ہوش اس وقت آیا جب طاقت پہلوان خود’’دھوبیا پاٹ،، پر آچکا تھا جھٹکے سے ہوا میں قوس بناتا ہوا دھماکے سے اکھاڑے میں جاگرا ۔ داستان شہہ زوراں میں اختر حسین شیخ نے لکھا ہے کہ تہمتن اور نورالدین کی تاریخی رزمیہ کہانی میں بھی یہی دائو استعمال ہوا تھا، خیر جونہی طاقت پہلوان عین اسمبلی اجلاس کی گنتی کے وقت اکھاڑے میں گرا نااہل پہلوان نے اسے قابو کرنے میں ذرا دیر نہ لگائی اور پھر فوراً ہی طاقت پہلوان پر’’سواری،، ڈال دی یعنی اس کے اوپر بیٹھ کر قابو کر لیا۔ طاقت پہلوان کو اس دائو کی توقع نہ تھی اس کا خیال تھا کہ نااہل پہلے ہی گرا ہوا ہے اب تو اسے آخری دھکے کی ضرورت ہے مگر نااہل پہلوان کے پٹھے عباسی پہلوان اور ایاز صادق پہلوان نے یہ کمال کر دکھایا۔ طاقت پہلوان ’’سواری،، کے دائو سے عاجز آگیا اور کل کے دن میں اپنی شکست کو مانتے ہوئے ہاتھ کھڑے کردئیے مگر آہستہ سے یہ بھی کہا آج کی بات اور ہے کل اس کا بدلہ ضرور لوں گا۔

چھوٹے شہر میں دنگل کے بعد سے افواہیں زوروں پر ہیں ۔کوئی کہتا ہے کہ 35سالہ تجربے کا حامل نااہل پہلوان شطرنج کی چال چل گیا’’دھوبی پاٹ،، اور ’’سواری،، کے دائو کی تیاری اس طرح سے کی گئی کہ ترقیاتی فنڈز بھی جاری کئے گئے اور پٹھوں کے کہنے پر تبادلے بھی کئے گئے۔ طاقت خان کے حواری ہار پر پریشان ہوئے، انہیں قوت آزمائی میں الٹی گنگا بہنے کی امید نہ تھی،طاقت خان ہار نہیں مانے گا بلکہ ایک نئے پلان پر عمل کرے گا۔ ایک دنگل پھر ہوگا، کشتی کی تیاری پھر سے ہوگی، نااہل پہلوان چاہتا ہے کہ انتخابی دنگل مارچ2018کے بعد ہو تاکہ نااہل کے پٹھے فنڈز استعمال کرکے اپنی قوت بازو بڑھا چکے ہوں جبکہ طاقت خان چاہتا ہے کہ سینیٹ الیکشن سے پہلے ہی عام انتخابات ہوجائیں۔ رسہ کشی جاری ہے اورجاری رہے گی۔ شہری تماشائیوں کا خیال ہے کہ قومی اسمبلی میں نااہل کی فتح صرف ایک پھلجھڑی ہے اسے دھماکہ نہ سمجھا جائے۔ طاقت پہلوان کی طاقت اور دبائو کا پورے شہر میں کوئی بھی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ کوئی لیڈر، کوئی تحریک ،کوئی جلسہ اور کوئی اسمبلی، طاقت خان کے راستے میں مزاحم نہیں ہوسکتی۔ دوسری طرف نااہل پہلوان کے ساتھی بغلیں بجا رہے ہیں کہ حالات بدل گئے معاملات بدل گئے اب تو الیکشن بھی نااہل پہلوان ہی جیتے گا۔دونوں کے دلائل میں وزن ہے لیکن دونوں پہلوان مکمل طور پر اپنے اپنے ہدف پورے نہیں کرپائیں گے، دونوں کو اپنا موقف بدلنا ہوگا، نااہل پہلوان کو بھی ایسا درمیانی راستہ اختیار کرنا ہوگا کہ آئے روز کی رسہ کشی اور دنگل بندہوں، دوسری طرف طاقت پہلوا ن کو بھی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس کے منصوبے چاہے کچھ بھی ہوں، انتخابی دنگل کے نتائج ضروری نہیں اس کی مرضی کے مطابق نکلیں۔ اسے بھی پاکستان کی قومی سیاسی جماعتوں کو قبول کرنا چاہئے اور سیاسی جماعتوں کو بھی اداروں کا احترام اور ان کاآئینی کردار دینا چاہئے۔ آرزوئوں اور خواہشوں کا یہ شہر کب تک دنگلوں اور جھگڑوں کے لئے تماشا گاہ بنارہے گا اور ہم کب تک ان تماشوں کے آنکھوں دیکھے حال سناتے رہیں گے یہ تماشے اب بند ہونے چاہئیں!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے