ہمارا ملک اور ہمارے لوگ اس حساب سے بہت معقول اور مناسب ہیں کہ یہاں ہر وقت ہر کسی کو سبز باغ بلکہ باغات دکھا کر کرلُوٹا جاسکتا ہے۔ اور جتنے وقت میں لوگوں کو سمجھ آتی ہے، قانون کے ادارے حرکت میں آتے ہیں ، لوٹنے والے یہ جا اور وہ جا۔بہت تسلسل کے ساتھ ایسا ہوتا چلا آیا ہے اور ہو رہا ہے۔ 80کی دھائی میں نجی فنانس کمپنیوں کا شوروغوغا رہا۔ لوگوں نے عمر بھر کی جمع پونجی اُن کے حوالے کی۔ اور پھر خاندان کے خاندان اُجڑ گئے۔ لوگوں کے ھارٹ فیل ہوئے۔ بچیوں کی شادیاں نہ ہو سکیں۔ لیکن فنانس کمپنیوں سے ایک دھیلہ واپس نہ ملا اور نہ فنانس کمپنیوں والے ہی ملے۔ ادارے سوتے رہ گئے۔ پھر پراپرٹی کا جن نکلا۔ ہزاروں ہاﺅسنگ سوسائیٹیاں وجود میں آئیں۔ لوگوں نے دھڑا دھڑ سرمایہ کاری کی۔ ریٹائرمنٹ پر ملنے والے پیسے جھونکے گئے۔ زیورات بیچ کر ان نام نہاد سوسائیٹیوں میں فائیلوں کی شکل میں کاغذی پلاٹ خریدے گئے۔ اور پھر وہی ہوا ۔ سب فراڈ نکلا۔پیسے ڈوب گئے۔نہ پلاٹ ملے اور نہ ہی وہ لوگ ہاتھ آئے۔ ادارے تب بھی سوتے رہے جب یہ فراڈ ہاﺅسنگ سوسائیٹیاں ملک بھر کے اخبارات میں پورے پورے صفحات پر مبنی اشہارات سے لوگوں کو گھیر رہی تھیں اور تب بھی سوتے رہے جب پیسہ بٹور کے یہ لوگ بھاگ گئے۔
تاج کمپنی سکینڈل۔ ڈبل شاہ اور نہ جانے ایسی کتنی مثالوں سے اس ملکِ عظیم کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ لیکن الحمدلللہ نہ ہم نے کبھی سبق حاصل کیا نہ کوئی نصیحت ہی پکڑی اور نہ عبرت ۔ پیسہ انوسٹ کرنے کا پیمانہ ذرا ملاحظہ ہو۔خالہ حمیدہ کے بیٹے نے ایک دوست کے کاروبار میں پیسہ ڈالا ہوا ہے۔ اسے ہر ماہ وہاں سے 20ہزرا مل رہے ہیں۔ اور اصل رقم محفوظ کی محفوظ، کوئی پابندی نہیں بس ایک ماہ کا نوٹس دے کر جب چاہے واپس لے لے۔۔۔ اچھا؟ ذرا خالہ سے بات کر کے ہمارے بھی پانچ لاکھ ڈلوادونا ۔ ۔۔ کوئی سوچ بچار نہیں ۔ کوئی پوچھ پرتیت نہیں۔ کوئی تحقیق نہیں۔ اور پھر جب پیسہ ڈوبے گا تو اس ناشدنی خالہ حمیدہ نے ڈبو دیا ہم کو۔ اورادھر خالہ حمیدہ خوداپنے پیسے کو رو رہی ہے اور بیٹے کو کوس رہی ہے۔
اب ایک بار پھر پوری دلجمعی کے ساتھ لوگوں کا بھرکس نکالا جا رہا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کوئی روکنے والا نہیں۔ ذرا اس اشتہار کو ملاحظہ فرمائیں۔ "” 9تا5سے ہٹ کر بھی کچھ چاہئیے؟ ایک خود مختار کنٹریکٹر کی طرح اوبر کے ساتھ گاڑی چلائیں۔ مکمل آزادی اور سہولت کے ساتھ جب اور جتنا آپ کا دل چاہے۔ ہر ماہ پچاس سے ساٹھ ہزار کمائیں”” یہ اشتہار اوبر کیب سروس کا ہے۔ اسی قسم کے اشتہارات کریم کیب سروس نے بھی دے رکھے ہیں جن میں ہر ماہ نوے ہزار تک کمانے کا لالچ دیا گیا ہے۔ان دو کمپنیوں کی توقع کے عین مطابق کسی سرکاری ادارے نے ان سے کوئی سوال جواب نہیں کیا اور نہ ہی ہمارے ذہین لوگوں نے کوئی تحقیق کی، بس اشتہار دیکھا ، اور جن کے پاس گاڑی نہیں تھی بینک سے سود پر قسطوں کی گاڑی لی اور چلانی شروع کر دی کریم اور اوبر پر۔
لیکن ہوا کیا۔ کریم اور اوبر نے اپنے ریٹس اس قدر کم رکھے ہوئے ہیں کہ گاڑی کی قسط نکالنے کے لیئے لوگ 16سے20گھنٹے گاڑی چلا رہے ہیں۔ میں نے کریم اور اوبر پر گاڑی چلانے والے کم وبیش بیس بیس لوگوں کے انٹرویوز لیئے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ "” نوکری نہیں مل رہی تھی۔ جب یہ اشتہار دیکھا تو موٹر سائیک اور بیوی کے زیور بیچ کر بینک سے گاڑی لیز کروائی۔ لیکن پورا دن چلا چلا کر بھی قسط کے پیسے نہیں نکل رہے”” نکلیں گے بھی کیسے۔ بیس سے بائیس کلومیٹر کا سفر کرنے پر اسے 97 روپے ملتے ہیں۔ 30 تا 40کلومیٹر گاڑی چلاکر 220روپے بنتے ہیں ۔ ان پیسوں میں تو پٹرول کے پیسے واپس نہیں آتے چہ جائیکہ کچھ بچت ہو۔ ایک اور بڑا اور میتھمیٹیکل فراڈ جو یہ کمپنیوں کر رہی ہیں وہ ہے گارنٹی اور بونس۔گارنٹی کیا ہے؟ آپ24 گھنٹے میں 11گھنٹے آن لائین رہیں اور 14سواریاں اُٹھائیں توکریم آپ کو تین ہزار کی گارنٹی دیتی ہے۔ یعنی آپ ان11گھنٹوں میں تین ہزار کمائیں گے۔ اور جو رقم تین ہزار سے کم ہوگی۔ وہ کریم اپنے پاس سے آپ کو دے گا۔ مثلا 11گھنٹے آن لائیں رہ کر 14سواریاںاٹھا کر آپ کے بنے 2700تو کریم آپ کو 3سو روپے دے گا۔ یہ کریم کی طرف سے گارنٹی ہے۔
لیکن شرط یہ ہے کہ سواریاں بھی چودہ سے کم نہ ہوں ۔ گھنٹے بھی گیارا سے کم نہ ہوں۔ ورنہ کوئی گارنٹی نہیں۔ اب اوبر کا سنئیے۔ پیر صبح چار بجے سے لیکر جمعہ صبح چار بجے تک آپ نے پچاس سواریاں اٹھالیں تو اوبر آپ کو 2600روپے بونس دے گا۔ لیکن اگر پچاسویں سواری اٹھانے میں جمعہ کی صبح چار بجے سے دو سینکنڈ لیٹ ہو گئے تو آپ بونس کے اہل نہیں رہتے۔ یہ اتنابڑا سراب ہے اور ایسا فراڈ ہے کہ لوگوں کو سمجھ نہیں آرہا۔ اسی ٹارگٹ کو پورا کرتے کرتے میری آنکھوں کے سامنے ایک نوجوان گاڑی چلاتے ہوئے سوگیا اور اس وقت تباہ شدہ گاڑی ورکشاپ میں کھڑی ہو اور ڈرائیور زندگی اور موت کی کشمکش میں ہسپتال میں پڑا ہے۔
میں نے اوبر اور کریم سے رابطہ کیا۔ میرے پاس ان کی ای میل موجود ہے ، جواب آیا کہ ہمارا بنیادی مقصد صرف اور صرف اپنی سواریوں کی تعداد بڑھانا ہے۔ ابھی کریم اور اوبر نے اسلام آباد میں جو سروے کیا ہے اس کے مطابق ان کے پاس 97فیصد لوگ بینک لیز والی گاڑی چلا رہے ہیں۔ جن کی مجبوری ہے ہر صورت میں گاڑی چلائیں گے کیوں کہ بینک کی قسط دینی ہے۔ دونوں کمپنیوں نے انتہائی سفاکی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اپنے ریٹس میں چند فیصد مزید کمی کر دی۔ اس تما م صورتحال کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بہت سے لوگ قسط نکالنے کے چکر میں دن رات گاڑی چلا کر بستر سے جا لگے ، گاڑی کی قسط اور منافع بھول کراب علاج معالجے میں مقروض ہو رہے ہیں۔ خاندان کے خاندان متاثر ہو رہے ہیں۔کریم اور اوبر ہر سواری اُٹھانے پر ڈرائیور سے 25فیصد اپنا حصہ لے رہے ہیں۔ اور جس ایپ کو سواری اور ڈرائیور استعمال کر رہے ہیں اس پر گوگل سے ماہانا کئی کروڑ الگ سمیٹ رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال کریم ، اوبر کے لیئے اور سواریوں کے لیئے بہت موزوں اور مسحور کن ہے۔ لیکن گاڑی مالکان اور ڈرائیور حضرات کی ہڈیا ںگل رہی ہیں۔آخر ہم کیوں اتنے بے وقوف ہیں؟کوئی کام شروع کرنے سے پہلے ہم حساب کتاب کیوں نہیں کرتے ؟ کیوںہر قدم بھیڑ چال میں اُٹھاتے ہیں؟ اور کیا کوئی سرکاری ادارہ کوئی محکمہ اس مخدوش صورتحال کو دیکھنے والا نہیں ہے ؟
کریم اور اوبر کے سراب میں پھنس جانے والے کوئی ایک دو لوگ نہیں ہیں۔ پورے پاکستان میں کروڑ سے تجاوز کرچکے ہیں۔ اور افسوس کہ ہر آنے والے دن میں مزید لوگ بینک سے لیز کروا کر اس پیر تسمہ پا کا شکار ہونے آتے جا رہے ہیں۔ ایک بہت بڑااور سنگین فنانشل ڈزاسٹر ہماری دھلیز پر ہے۔ اسے روکنا ہوگا ابھی کے ابھی۔
نوٹ: اس مضمون پر اگر اوبر اور کریم کمپنیاں اپنی رائے دینا چاہیں تو وہ ہمیں لکھ سکتے ہیں . ویب سائٹ پر رابطہ پر کلک کیجئے .