نادان اوردانامیں کیا فرق ہے؟

حکومت اورلبیک یارسول اللہ (ص) کہنے والے مظاہرین کے درمیان معاہدہ طے پا گیا جس کے تحت مظاہرین کا شروع دن سے مطالبہ نمبر ایک “ وزیر قانون زاہد حامد استفی دین” کو تسلیم کرتے ہوئے وزیر نے استفی بھی دے دیا ہے – میں ذاتی طور ایسا مطالبہ تسلیم کرنا دور رس ریاستی وقار اور اقتدار اعلی کے خلاف سمجھتا رہا اور اب بھی ہوں ، لیکن “ میاں بیوی راضی کیا کرے قاضی” کے مصداق جو ہوا وہی ایک حقیقت ہے، باقی محض خوش فہمی ہے-

سیانے کہتے ہیں “ All is well that ends well” لیکن سیانے یہ بھی کہتے ہیں “ جو کام دانا کرتے ہین نادان بھی وہی کرتے ہیں لیکن بہت بڑی خرابی کے بعد”- بیس دن تک حکومتی دارالخلافہ کے ذریعہ پورے ملک کو یرغمال بنانےوالوں نے وہ ہدف حاصل کرلیاجس کے نہ کرنے کی حکومت نے ضد باندھی ہوئی تھی-اس ضد کی وجہ مستقبل کی ہر حکومت یرغمال بنی رہے گی، جس سے ملک عدم استحکام کا شکار، اقتصادی، انتظامی اور سفارتی طور “بنانا ریاست “ بن جائے گی-

دھرنا دینے والوں کا جذباتی طور ، جبکہ قوم کے ہر ذی شعور کا شعوری طور یہ ادراک تھا کہ حلف کے الفاظ کو بدلنا بے شعوری کاروائی اور گناہ بے لذت تھا، اس کی تلافی کرکے اس کو اصل حالت میں بحال کرنا اور اس کی تحقیقات کے لئے مسلم لیگ کے ایک معتبر ترین شخص کو مقرر کرنا اس کا واضح ثبوت ہے- اس کے بعد سزا صرف وزیر کو دینا کافی نہیں بلکہ اس کاروائی میں شامل سب لوگ برابر کے شریک اور مستوجب تعزیر ہیں، ان کو تحقیقاتی رپورٹ آنے کے بعد ضرور سزا ملنی چاھئے- اگر میرا حافظہ غلط نہ ہو تو غالبآ جنرل مشرف کے وقت بھی یہی شخص وزیر قانون تھاجس نے اس وقت بھی ایسے ہی دفاع کیا تھا جو آج تک قوم کے حلق مین اٹکا ہوا ہے-

یہ دھرنا ایک سیاسی اور انتظامی ایشو تھا، اس میں عدالتوں کی مداخلت بھی حدود سے تجاوز تھا-عوامی مطالبات ، وہ بھی مذہبی بنیادوں اور جذبات پر مبنی ، عدالتی فیصلوں سے نہیں ، سیاسی اور انتظامی گفت و شنید اور افہام و تفہیم سے حل ہوتے ہیں،جیسا کہ بالآخر ہوا، اور عدالتی احکامات نہ صرف بے توقیر ہوئے بلکہ حکم جاری کرنے اور ریمارکس دینے والے ججوں کے نام لے کر جو “عزت” افزائی کی گئی وہ بھی تاریخ کا حصہ بن گئی ہے-

اسی طرح فوج کو آئین کے تحت بلانے کے باوجود اس کا اس سے احتراز و گریز اور لیت و لعل کرنا ، اور پھر اس کے ایک میجرجنرل کی “ وساطت “ ( جیسا کہ سوشل میڈیا پر گشت کرنے والے راضی نامہ کے الفاظ سے واضح ہے )بہ الفاظ دیگر ثالثی کے ذریعہ ، دھرنے والوں کی شرائط کو ماننا اور ان کا دھرنا ختم کرنا بھی کوئی آئینی اور قابل تحسین عمل نہیں ہے- گوکہ اس کا نتیجہ درست نکلا، لیکن اگر فوج کا حکومتی طلبی کا حکم جائز ، مناسب یا قابل عمل نہ تھا، تو اس کا بلواسطہ عمل کیسے درست ہو سکتا ہے-؟

فوج پاکستانی سیاسی اور انتظامی زندگی کا “ ان لکھا “ حصہ ہے، یہ خدمت ان سے پہلے ہی لی جاتی ، اس میں فوج، سول اداروں ، قوم اور دھرنوں والوں بلکہ سب کا بھرم رہتا- جب تک سول ادارے اور ان کے سیاسی حکمرانوں کا اپنا طرز عمل آئینی، قانونی اور اخلاقی بنیادوں ، اپنی ذات، جماعت، خاندانی اور گروہی مفاد سے بالا تر نہیں ہوگا، اس وقت تک پاکستان مین فوج کی حیثیت ویسی ہی رہے گی جیسی ترکی میں رجب طیب اردگان سے پہلے فوج کی حیثیت تھی- اس لئے مستقبل کے ہر حکمران کو یا تو اخلاقی طور اپنا طرز عمل بالا تر کرنا چاہیے یا اس حقیقت کا ادراک کرکے اس کو آئینی اور قاعدہ کلیہ کے تحت منضبط کرنا چاہیے-

حکومت بھلےجو بھی جماعت بنائے ، اس کے سامنے صرف قومی اور ریاستی مفاد ہونا چاہیے، جماعتی، خاندان اور گروہی نہیں اور اس قسم کے فیصلے کرتے وقت مشاورت کی حدود وسیع تر ہونی چاہییں، اس شعبہ کے ماہر ترین لوگون سے ہونی چاہییں ، خاندان اور کچن کیبنٹ کی جی حضوریوں تک نہیں – فی الوقت یہ بات بظاہر جماعت اسلامی اور پاکستان پیپلز پارٹی میں محسوس ہوتی ہے، گوکہ پیپلز پارٹی کا محور بھی مسلم لیگ کی طرح ایک خاندان ہی ہے-اس ساری تحریک کے دوران پیپلز پارٹی کا عوامی طرز عمل درست رہا، لیکن نواز شریف سے “ ہاتھ ملانے یا ہاتھ نہ کرنے “ والی بات غیر جمہوری طرز عمل ہے اور اس کے اس دعویٰ کی نفی ہے کہ “ سسٹم کو خطرہ ہے-“ اگر خطرہ ہے تو سب کو اپنا اخلاقی اور انتظامی طرز عمل درست کرکے اس کا مل کر مقابلہ کرنا چاہیے-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے