سر رہ گزر کم نقصان پر بڑے نقصان سے بچا جائے

دھرنے پر آپریشن اور خرابی بسیار کے بعد وزیر قانون نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ابتداء ہی میں معاملے کو وزیر اعلیٰ پنجاب کی رائے کی روشنی میں حل کر لیا جاتا تو یہ دھرنا اسلام آباد نہ جاتا، لاہور ہی میں معاملات طے پا جاتے، یہ جانتے ہوئے کہ ختم نبوت نہایت حساس معاملہ ہے پھر کیوں حلف نامے میں تبدیلی کی گئی، اور دھرنے والوں کو بھی مان لینا چاہئے تھا کہ بعد میں غلطی درست کر دی گئی اور ترمیم لا کر حلف نامے کو اپنی اصلی حالت پر لایا گیا، بہرحال جب آگ لگتی ہے تو اس کے اسباب پر میٹنگ کرنے کے بجائے فوری طور پر بجھانا ہی عقلمندی ہوتی ہے، مگر ہمارے ارباب بست و کشاد کچھ زیادہ ہی عقلمند ہیں، جتنا خود کو دلدل سے نکالتے اتنا ہی اس میں پھنستے جاتے ہیں، ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ اس ملک میں نالائقی نا اہلی کو سازش کہا جاتا ہے۔
٭٭٭٭

تیری الفت میں صنم
وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے:آپریشن انتظامیہ نے ہائیکورٹ کے حکم پر کیا، میں مذاکرات چاہتا تھا۔ اس وقت ساری چڑھائیاں وزیر داخلہ پر ہو رہی ہیں، حالانکہ بساط کے سارے مہرے شاہ کے غلام ہیں، حماقت انفرادی ہو تو اتنی نقصان دہ نہیں ہوتی لیکن جب یہ اجتماعی شکل اختیار کر لے تو بڑی خرابی کا باعث بن جاتی ہے، اندھی تقلید اور وہ بھی جس کا کوئی مکلف بھی نہ ہو کنویں میں جا گراتی ہے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی فری ہینڈ کے ساتھ معاملات طے کرتے تو یہ صورتحال اس مقام تک نہ پہنچتی کہ سارے ملک کی شاہراہیں بند ہو جاتیں، سارا وطن دھرنا دھرنا ہو جاتا، ایک غلطی کا ازالہ کر دیا گیا مگر دھرنے کے سبب پورا ملک دائو پر لگ گیا،غلط ہینڈلنگ کے باعث سارے شہروں میں دھرنے، مظاہرے جلائو گھیرائو شروع ہو گیا تو حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ یہ مطالبہ مان لیا جاتا کیونکہ حالات کی سنگینی کے پیش نظر کوئی الٹی گنگا چلائے تو بھی زیادہ تباہی سے بچنے کے لئے اضطراری حالت میں بعض فیصلے کرنے پڑتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر داخلہ پر عدالت بھی ناراض ہوئی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ آپریشن نہ ہو کسی طرح مذاکرات ہی سے مسئلہ حل ہو جائے، اب چوہدری نثار کیوں جزبز ہو رہے ہیں وہ ہوتے تو اس مخمصے کو کیسے حل کرتے، وہی ہوتا جو ہو رہا ہے، ہم تو سمجھتے ہیں کہ ہم سب مع حکومت مجبور ہیں، شاید ہم مجبوری جانتے بھی ہیں اور نہیں بھی جانتے، حماقت پر حماقت یہ کی گئی کہ اچانک میڈیا کو بند کر دیا گیا، اب اس حکم کا الزام وزیر اطلاعات کو دیا بھی جا سکتا ہے نہیں بھی دیا جا سکتا، میڈیا تو آزاد ہو چکا حکومت کب آزاد ہو گی؟
٭٭٭٭

بیمار ڈرامے
پی ٹی وی نے جس ڈرامے کی داغ بیل ڈالی تھی آج وہ ڈراما بن کر رہ گیا ہے، نئی نسل کو منفی دائو پیچ سکھانے والے نہ ختم ہونے والے سیریل سر تا پا بیمار ہیں اور ان کا مرض پورے معاشرے میں متعدی مرض کی طرح پھیل رہا ہے، اسی پر بس نہیں ہمسایہ ملک کے گورکھ دھندا ٹائپ ڈرامے بھی ہمارے ہاں عام دکھائے جا رہے ہیں، ہمارے چینل مالکان اس فتنے کا نوٹس لیں، کچے ذہنوں کو پکے فتنوں کا شکار نہ ہونے دیں، ابھی کل کی بات ہے کہ ایک ہی سرکاری چینل کے باعث ہم ڈراموں میں خود کفیل تھے، اور ایسے دلچسپ ٹریفک جام ڈرامے پیش کئے جاتے کہ ٹی وی سے مراد ہی سرکاری ٹی وی تھا، آج چینلز بیشمار ہو گئے، بڑی اچھی بات ہے، ورائٹی وسیع ہے، لیکن ڈرامے کے حوالے سے بیمار ذہنیت پیدا ہو رہی ہے، گھریلو جھگڑوں سے نکل کر ہلکے پھلکے تربیتی اخلاقی اور مزاح سے بھرپور ڈرامے دکھانا چاہئیں، تاریخی ڈرامے بھی تاریخ کو فلمی سیٹ بنا کر نہ پیش کئے جائیں اور نہ ہی تاریخ کو مسخ کیا جائے اور یہ کہا جائے کہ ڈرامے کی ضرورت ہے، ڈراما ادب کی ایک بڑی صنف ہے، اس کے لکھنے والوں کو زبان بیان ڈراما تکنیک اور وسیع مطالعے کا حامل ہونا چاہئے یہ نہیں کہ چند ناول پڑھ کر ڈراما لکھنے بیٹھ گئے، ڈراما، گیتوں اور موسیقی سے خالی ہونا چاہئے تاکہ وہ حقیقت اور فطرت سے قریب تر ہوں، چربہ ڈرامے بھی عام ہیں، کسی اور ملک کے ڈرامے پیش کرنا اپنے کلچر کو دیس نکالا دینے کے مترادف ہے، آج بھی مستند ڈراما نگار موجود ہیں، چینلز کو ان کی خدمات حاصل کر کے پاکستانی ڈرامے کے عہد رفتہ کو واپس لانا چاہئے۔
٭٭٭٭

حقیقت کھل گئی خدا خدا کر کے
….Oراجہ ظفر الحق:میری رپورٹ مکمل، بحران حل ہو سکتا ہے۔
مگر آپ کی رپورٹ اگر منظر عام پر نہیں آتی اور جنگل ہی میں ناچتا رہا تو قوم کو کیسے خبر ہو گی کہ آپ تو مسئلہ حل کر چکے تھے،
….Oعدالتوں کے باہر جو تماشے ن لیگ کے انتہائی عقلمند وزراء کا ٹولہ پیش کرتا رہا ان کا ردعمل بھی فیض آباد دھرنے میں شامل کر لیں،
….Oشیخ رشید:حکومت 30جنوری سے پہلے ختم، نواز شریف فرار ہو جائیں گے،
اتنی لمبی تاریخ دیکر کوئی بھی آپکو نجومی ماننے کو تیار نہیں ہو گا۔
….Oاحسن اقبال:ہلاکتیں چوہدری نثار کے گھر پر حملہ کے دوران ہوئیں۔
قتل کبھی چھپ نہیں سکتا، اگر ایسا ہوا ہے تو ضرور سامنے آ جائے گا۔
….Oچوہدری نثار:اپنی نا اہلی نہ چھپائیں،
اب تو یہ لگتا ہے کہ ساری ن لیگ نہایت قابل ہے، مگر قسمت ہی خراب نکلی کہ نا اہلی اس کے گلے کا ہار بن گئی، ایک ہار نے کتنے ہار جنم دیئے،
دراصل نا اہلی متعدی مرض ہے۔
….Oمنظور وسان (وزیر خواب پی پی): اسٹیبلشمنٹ فنکشنل لیگ سے کام لیکر جیل بھیج دی جائیگی۔
اسٹیبلشمنٹ کو اپنے کرتوتوں کے لئے خیمہ گاہ بنانے کی سیاست دراصل سیاسی نا اہلی ہے، سیاسی اوورہالنگ کر کے سب کو کیوں نکالا بنا دینا چاہئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے