آستانہ عالیہ پیرزادہ عطا الحق قاسمی

میرے قارئین کو شاید علم نہیں کہ میرے خاندان کے بزرگ ایک ہزار سال سے رشد و ہدایت کا منبع رہے ہیں اور ان کے شاگردوں میں حضرت مجدد الف ثانیؒ اور ملّا عبدالحکیمؒ کے علاوہ سینکڑوں اولیا و علما شامل ہیں۔ امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ اور مفتی محمد حسنؒ کے علاوہ پاک و ہند کے سینکڑوں دوسرے علما میرے دادا مفتی غلام مصطفیٰ قاسمیؒ کے شاگردوںمیں سے ہیں۔ یہ سلسلہ میرے والد ماجد مولانا بہاء الحق قاسمی تک جاری رہا۔ بعد میں انہوں نے بیعت لینے کا سلسلہ ترک کیا اور حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ آف گولڑہ شریف کے دست ِحق پرست پر بیعت کرلی۔ میں ایک عرصے تک اپنے نام کے ساتھ ’’پیرزادہ‘‘ لکھتا رہا مگر میں نے محسوس کیا کہ میں ایک گناہگار شخص ہوں اور اپنے نام کے ساتھ اس نسبت کا حوالہ چنداں مناسب نہیں چنانچہ میں نے لفظ پیرزادہ حذف کرکے اپنے نام کے ساتھ صرف قاسمی کی نسبت برقرار رکھی۔
یہ حوالہ مجھے اس لئے دینا پڑا کہ حال ہی میں دوبارہ اپنے نام کے ساتھ ’’پیرزادہ‘‘ لکھنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ مجھے بیٹھے بیٹھے اچانک خیال آیا ہے کہ میں طاقت کے اتنے بڑے منبع سے خود کوکیوں محروم رکھے ہوئے ہوں۔ میں گھر سے نکلتا ہوں تو لوگ بطور ادیب مجھےاحترام تو دیتے ہیں لیکن نرے احترام کو میں نے چاٹنا ہے۔ دس بیس لوگوں نے اپنے کسی پیرجی کے حکم پر سڑکیں بند کی ہوتی ہیں اور ہزاروں دوسرے شہریوں کی طرح میں بھی ان کے ساتھ خجل خوار ہو رہا ہوتا ہوں۔ اسی طرح میں نے محسوس کیا کہ میں کسی کو کوئی حکم دوں، وہ اس پر لبیک نہیں کہتا۔ پھر یہ کہ مجھے کام کرکے رزق کمانا پڑتا ہے۔ میں تھکا ہوا ہوتا ہوں، کوئی میرے پائوں نہیں دابتا، تھکا ہوا نہ ہوں تو بھی دس بیس پائوں دابنے والے تو ہونے ہی چاہئیں نا۔ گھر سے باہر قدم رکھوں تو تیس چالیس خدام ادب کے ساتھ کھڑے ہوں جو ہاتھ سینے پر باندھے میرے پیچھے پیچھے چل رہے ہوں۔ رستے میں سو پچاس مرید ہاتھ چومنے بلکہ سجدہ ریز ہونے والے بھی تو ہوں صرف یہی نہیں بلکہ میرے اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھانے کے لئے وزرائے اعظم اور دوسرے صاحبانِ اقتدارمیرے درِ دولت پر تشریف لائیں۔ کرنیل اورجرنیل بھی میری خدمات سے استفادہ کریں مگر انہیںمیرے پاس چل کر آنے کی ضرورت نہیں وہ اپنے اردلی کے ذریعے ملاقات کاحکم دیںاور میں سر کے بل چل کر ان کی خدمت میں حاضرہوںگا۔ یہ اس لئے کہ میر ےنزدیک بس یہی ایک ادارہ ہے جوقابل احترام ہے، باقی سب ایویں ای ہیں۔

چنانچہ اپنی ان خواہشات کی تکمیل کے لئے میں نے اپنے نام کے ساتھ دوبارہ پیرزادہ لکھنا شرو ع کردیا ہے اور اب بیعت لینے کے لئے تیار ہوں۔ میں نے کسی بزرگ کا عرس منانے کا پروگرام بھی بنایا ہے جس کے لئے میں کچھ ملنگوں کی خدمات حاصل کرنے کا ارادہ کرتا ہوں۔ ان کا کام اس مزار پر صبح و شام ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈالنا ہوگا۔ تاہم واضح رہے کہ مزار بس مزار ہی ہوگا اس میں کوئی ولی اللہ دفن نہیں ہوگا۔ اس غائب ولی کی کرامات مشہورکرنے کے لئے بہت سے بیروزگار میرے ایک اشارے کے منتظر ہیں۔ وہ لوگوں کو بتائیں گے کہ جب حضرت پیدا ہوئے تو اس روز لاکھوں بے اولاد افراد کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی چنانچہ آج بھی اس ولی کی دعا سے بے اولاد بلکہ بے مراد لوگ بھی اپنی مرادیں پاتے ہیں۔ تاہم میں کسی سے نذر نذرانہ وصول نہیںکروں گا۔ میرے لئے یہ حرام ہوگا۔ ہاں میرے نام پر اگر کوئی شخص کسی سے کچھ طلب کرے تو اسے دینے میں کوئی حرج نہیں۔ میں اس کام کے لئے کسی ضرورت مند عیالدارشخص کا انتخاب کرکے مریدوںکومطلع کردوں گا!

اب ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے جو میرے ہر پروگرام کے حوالے سے مجھے تذبذب میں ڈالے ہوئے ہے اوروہ یہ کہ میں انگریز مردودوں کا سا لباس پہنتا ہوں۔ شکل بھی ان مردودوں جیسی بنائی ہوئی ہے جبکہ پیرانِ کرام کاحلیہ اور وضع قطع اسلامی تو نہیں، مقامی ہوتا ہے۔ میرے رسول عربیﷺ میرے ماں باپ ان پر قربان ہوں شلوار نہیں تہبند زیب تن فرماتے تھے جبکہ ہمارے بزرگان نیفے کے قریب جیب والی شلوارپہنتے ہیں۔ بہرحال میرے کرتوت جیسے بھی ہوں میں اپنی شکل مومنوں جیسی بنانے کی پوری کوشش کروںگا اور ہاں میں نے اپنا پروگرام تو آپ کے ساتھ اب شیئر کیا ہے جبکہ میرے کارندے ملک کے طول و عرض میں بہت پہلے سے اپنے کام میں مشغول ہیں جو میں نےان کے سپرد کیاہے۔ میں نے انہیں یہ بھی کہا تھا کہ غائب ولی کی کرامات کے علاوہ ان کےسجادہ نشین پیرزادہ عطاالحق قاسمی کی کرامات بھی دل پرجبر کرکے پبلک میں عام کریں۔ امید ہے اس وقت تک انہیں کافی کامیابی حاصل ہوچکی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے حصے کےبے وقوف پیدا کئے ہوئے ہیں دعا کریں میرے حصے میںزیادہ سے زیادہ آئیں۔

آخری بات، میں آج سے بیعت لینے کا سلسلہ شروع کر رہا ہوں جوپہلے آئیں، پہلے پائیں کے اصول پر ہوگا۔ جلدی کریں۔ یہ پیشکش محدود مدت کے لئے ہے۔ ایک درخواست اپنے بے تکلف دوستوں سے بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب وہ میرے کسی مرید سے میری کرامات سنیں تو خدا کے لئے اپنی ہنسی پر قابو رکھیں اور ہاں آئندہ عطا الحق قاسمی نہیں میرا نام پیرزادہ عطاالحق قاسمی لکھاجائے اورپکاراجائے! وما علینا الا البلاغ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے