سپریم کورٹ:وفاقی حکومت کہیں نظر نہیں آرہی۔ کیا تجاوزات ہٹانے کے لئے بھی فوج بلا کر معاہدہ کرنا پڑے گا۔ بے احتیاطی ریاست کے لئے اچھی نہیں۔ جب کوئی وفاقی حکومت آفاقی ہو جاتی ہے تو نظر نہیں آتی۔ آفاقی کا مطلب آنجہانی ہوتا ہے اور اُس پار جانے والے کب لوٹ کر آتے ہیں کہ دکھائی دیں۔ تبصرے، تجزیئے، سوچ بچار یہ سب کچھ اب عبث ہے کیونکہ ہر چیز اپنی شناخت کھوبیٹھی ہے۔ حماقت نے عقل کو، ہوس نے قناعت کو، حکومت نے کارکردگی کو، مال حرام نے حلال کو، خباثت نے شرافت کو اور حسن نے عشق کو کھڈے لائن لگا دیا ہے۔ سیاست، حکومت صرف لوٹ مار کا نام ہے۔ ریاست کے نیچے سےزمین کھینچ کر اس پر قبضہ مافیا پلاٹ بنا رہا ہے۔ تجاوزات کا یہ عالم کہ عالَم و ملک، تمام حلقہ دوام خیال ہے، امیر ہر جگہ پر قابض مگر نظر کہیں نہیں آتا۔ غریب سب کچھ لٹا کر ہوش میں ہے مگر اس کے بس میں بس اتنا ہے کہ ملزم ہو تو ہتھکڑی میں آتا ہے۔امیر مجرم بھی ہو توپروٹوکول میں حاضر ہو کر عدالت پر گویا احسان دھرتا ہے۔ ایک بیمار ہو کر بھی صحت مند ہے، دوسرا صحت مند ہوتے ہوئے بھی بیمار ہے۔ حکومت کو جہاں نظر آنا چاہئے وہاں نہیں ہوتی اور جہاں نظر نہیں آنا چاہئے وہاں موجود ہوتی ہے۔ اس وقت فوج سے سرحدوں کی حفاظت سے لے کر اپنی حماقت کے انجام سے بچائو تک کا کام لیا جارہا ہے۔حکومت ایک ایسا لطیفہ بن چکی ہے کہ ساری دنیا اسے سن کر ہنس رہی ہے۔ دراصل یہاں حکمرانوں کی صورت میں ایک ٹولہ نظرآتا ہے جس کے اندر کئی سیاسی فرقے ہیں۔ ان کے پاس ساری قوم کے نوالے ہیں۔ حالانکہ ان کے چہرے پر منہ ہی نہیں ناک بھی نہیں ہے۔ ناک، شرم دلاتی ہے اور شرم ان کو نہیں آتی کہ ناک اتار کر سات سمندر پار اپنی کمائی سمیت رکھ آئے ہیں۔ اتنی کرپشن ہوچکی ہے کہ احتساب کرتے کرتے یوم حساب آ جائے گا۔ اب ایسی خوبیوں کی مالک حکومت کس منہ سے نظر آئے۔ اب تو ساراجہاںآنکھیں بن جائے پھربھی حکومت نظر نہیں آئے گی۔ اشرف المخلوقات نظر آ جاتی ہے مگر اشرف المکروہات کیسے نظر آئے؟
٭٭٭٭٭
سستی بجلی مہنگے حکمران
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے:سستی ترین بجلی بنانے والے پورٹ قاسم پلانٹ کا افتتاح ہوگیا۔ پیداوار ملکی ضرورت سے بڑھ گئی۔ سستی ترین بجلی مہنگی ترین کرکے بیچنےکا پلانٹ کب بند ہوگا؟ یہ سوال ان کا ہے جن کی دہلیز پر ہر ماہ بجلی کا بل ایٹم بم کی صورت گرتا ہے۔ اخبار کی سرخیوں کی حد تک تو سب کے لب لپ اسٹک سے سرخ ہیں مگر زمینی حقائق کے مطابق جن لوگوں کامرنا جینا اس ملک سے وابستہ ہے وہ زردزرد ہیں۔ وزیراعظم پسند کریں تو یہ مژدہ بھی سنادیں کہ اب بجلی کی فی یونٹ قیمت پہلےسے نصف ہو جائے گی توسستی ترین نہ سہی کم ازکم سستی بجلی تومل جاتی۔ پورٹ قاسم پلانٹ کارنامہ تو ہے اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا مگر اقبالؒ کے اس شعر کا بھی انکار ممکن نہیں؎
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
بندۂ مفلس تک خوشحالی کی خبریں پہنچتی ہیں، خوشحالی نہیں پہنچتی۔ جیسے ملّا کو بخار آتا ہے بخاری نہیں آتی۔ ہمارے ہاں ناٹک بھی ایسا ہے کہ تماشائیوں کو ٹکٹ دے کربھی تماشا نظر نہیں آتا۔ ہم امیدکرتے ہیں کہ دیر آید درست آیدکے مصداق آج وزیراعظم سستی ترین بجلی کے سستے ترین نرخوںکابھی اعلان کردیں تو ہم عوام بھی جان لیں گے کہ کہیں کوئی سستی ترین بجلی کا پلانٹ لگ گیا ہے جو ہماری ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کر رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
لاہور کا کچرا کون اٹھائے گا؟
عروس البلاد کراچی کی کچرا کہانی کے بعد پیرس آف پاکستان لاہور بھی کچرا نگری بن چکا ہے۔ گھر کا کوڑا پھینکنے کو کہیں کوڑا دان نہیں۔ اب گلیوں محلوں میں صفائی کا عملہ نظر نہیںآتا۔ پرانے غریبوں کی نئی بستیوں میں خالی پلاٹ جوہڑ بن چکے ہیں۔ جرائم پیشہ لوگ بھی ان غریبوں کی بستیوں میں رہنا پسند کرتے ہیں کیونکہ یہاں تک انتظامیہ کے ہاتھ پہنچنے پر بھی نہیں پہنچتے۔ شہر میں چند بستیاں ہیں جہاں ہر لین پیرس ہے۔ باقی اکثریتی لاہور کوڑا کوڑا ہے۔ ٹیکس غریب دیتے ہیں۔ پولیس کی وردی دیکھ کر بھی ڈر جاتےہیں اور اپنا احتساب شروع کردیتے ہیں حالانکہ ہماری پولیس شہر کے غریبوں کو ہرگز تنگ نہیں کرتی وہ تو زور آور پر ہی حملہ آور ہوتی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے لاکھ کوشش کی اس سے انکار نہیں مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ لاہور پیرس تو کجا بھوٹان کاکوئی شہر بھی نہ بن سکا۔ ایک مفلس کو جب کوڑا پھینکنے کے لئے کوئی جگہ نہ ملی تو اس نے ہمسائے کی دیوار کےسائے میں کوڑا پھینک دیا۔ صاحب ِ دیوار نکلا اور کہنے لگا میری دیوار کے ساتھ کوڑا کیوں پھینکا؟ ایک تیسرا ہمسایہ برآمد ہوااور کہنے لگا یہ نہ کہو کوڑا کیوں پھینکا یہ کہو کوڑا کیوں نکالا؟ اور جھگڑا خوش گپی میں بدل گیا۔ کوڑا اٹھانےپر مامور سرکاری ملازم کوڑا اٹھاتے ہیں بشرطیکہ کوئی ان کو بھتہ دے۔ حالانکہ وہ اس کام کی تنخواہ غریبوں کے ٹیکسوں سے وصول کرتےہیں۔ ہماری گزارش ہے کہ شہر کی صاف جگہوں کے ساتھ یا ان کے طفیل عوام کی بستیوں تک بھی صفائی ستھرائی کا نظام پھیلادیا جائے۔ چند کوڑا دان رکھنے سے کام نہیں چلتا، ہر گلی میں بیچ گلی رکھا جائے تاکہ معلوم ہو کہ نظام صفائی کس قدر آئیڈیل ہے۔ جن پلاٹوں میں گندے پانی کے جوہڑ ہیں ان سے پانی نکالا جائے اور پھر سے ان کے جوہڑ بننے کو روکنے کے لئے سیوریج کا نظام درست کیاجائے۔ اگرایسا نہیں ہوسکتا تو لاہور کو پیرس بنانے کے الفاظ واپس لئے جائیں۔
٭٭٭٭٭
سیاسی بابا بمقابلہ سنیاسی بابا
O۔ احسن اقبال:عمران خان سیاست کے بابا، ماچس لے کر پٹرول کی تلاش میں رہتے ہیں۔
آپ انہیں پٹرول کیوں فراہم کرتے ہیں؟
O ۔ عمران خان:حلف نامے میں تبدیلی ایک لابی کو خوش کرنے کی کوشش تھی۔
خان صاحب آپ بھی دوسروں کی طرح نام نہیں بتاتے۔ ابہام میں ڈال کر صرف پریشان کرتے ہیں۔
O ۔ مودی:میں نے چائے بیچی ملک نہیں بیچا۔
مودی کا یہ بیان نہایت سبق آموز ہے۔
ہم نے بھی ملک نہیں بیچا اس کا سازو سامان اوایل ایکس پر رکھ دیا ہے۔