خواتین کو ووٹ کا حق دیں

ملک میں ہرگزرتے دن کے ساتھ عام انتخابات کا بروقت انعقاد مشکوک ہوتا جا رہا ہے ،جمہوری حکومت کی راہ میں اپنےلوگوں کے ذریعے روڑے اٹکانے سے لے کر آئے روز کے نت نئے تماشوں کی وجہ سے بے یقینی کی صورتحال بڑھتی جا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن عام انتخابات کے بر وقت انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے اگست سے دہائیاں دے رہا ہے لیکن نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے آئینی ترمیمی بل تاحال ایوان بالا سے منظورنہیں کرایا جا سکا جس کی وجہ سے صدارتی نظام سے قومی حکومت کے قیام تک چہ مگوئیوں میں شدت آتی جا رہی ہے۔

عام انتخابات سے متعلق کچھ مسائل توحالات کے جبر اور اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کیلئے جاری کھینچا تانی کا نتیجہ ہیں لیکن ان گنت چیلنجز ایسے بھی ہیں جو اپنی ذمہ داریوں کو بروقت ادا نہ کرنے،عدم توجہی ، لاپروائی اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث حکومت کے خود پیدا کردہ ہیں۔اصولی طورپر تو عام انتخابات 2018کی ناگزیر ضروریات کے تحت نئی مردم شماری کے مطابق انتخابی حلقوں کی حد بندیاں اور ووٹر لسٹوں کی تیاری جیسے امورحتمی مراحل میں داخل ہوجانے چاہئیں تھے لیکن زمینی حقائق کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔الیکشن کمیشن کی طرف سے سات دسمبر کو ووٹر ڈے منانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اور اسی ضمن میں ووٹر بننے کی اہل خواتین کی بطورووٹررجسٹریشن کیلئے آج سے خصوصی مہم کا آغاز بھی کیا جا رہا ہے۔ انتخابی اصلاحات پر مبنی الیکشن ایکٹ 2017 میں بھی یہ طے کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابی عمل میں خواتین کی شرکت کو یقینی بنانے کیلئے خصوصی اقدامات کرے گا تاکہ پولنگ ڈے پر خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح کو بڑھایا جا سکے۔ نئی قانون سازی میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ اگر کسی حلقے میں مرد اور خواتین ووٹرز کے درمیان تناسب 10 فیصد سے زیادہ ہو تو اس کو کم کرنے کیلئے ہنگامی اقدامات کئے جائیں گے۔

عام انتخابات میں خواتین کی شمولیت کو بڑھانے کیلئے سیاسی جماعتوں پر لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ جنرل نشستوں پہ 5 فیصد ٹکٹ خواتین کو دیں گی۔حالیہ مردم شماری کے مطابق ملک میں مردوں کی مجموعی تعداد 10 کروڑ 64 لاکھ 49 ہزار 3 سو 22جبکہ خواتین کی تعداد 10 کروڑ 13 لاکھ 14 ہزار 7 سو 80 ہے۔ یوں مرد مجموعی آبادی کا اکیاون فیصد جبکہ خواتین اڑتالیس اعشاریہ چھہتر فیصد ہیں۔ آج کے پوائنٹ آف آرڈر میں عام انتخابات سے متعلق اس انتہائی اہم معاملے کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے جس کی نشان دہی غیر سرکاری تنظیم فافن نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کی ہے۔ تنظیم نے الیکشن کمیشن کی طرف سے اکتوبر میں جاری کئے گئے اعدادوشمار کی روشنی میں بیان کیا ہے کہ انتخابی فہرست میں بطور ووٹر رجسٹرڈ خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں تقریبا ایک کروڑ22 لاکھ کم ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں اکتوبر تک مجموعی طور پر 9کروڑ70لاکھ22 ہزار 5 سو91 شہری بطور ووٹر رجسٹرڈ ہوئے، جن میں5 کروڑ45لاکھ98ہزار ایک سو 73مرد جبکہ4 کروڑ24 لاکھ24 ہزار4 سو 18 خواتین شامل ہیں۔ ان رجسٹرڈ ووٹروں میں خیبر پختونخوا میں تعداد1 کروڑ40 لاکھ16 ہزار5سو71ہے جن میں 80لاکھ7 ہزار2 سو62مرد اور60 لاکھ 9ہزار3 سو9خواتین شامل ہیں۔

اس طرح مرد رجسٹرڈ ووٹرز کے مقابلے میں خیبر پختونخوا میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد14فیصد کم ہے۔ فاٹا میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 21لاکھ42ہزار5سو52ہے، جن میں 13لاکھ 32ہزار9سو21مرد اور8لاکھ 9ہزار6سو31خواتین ہیں۔ اس طرح رجسٹرڈ مرد ووٹرز کے مقابلے میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد8 فیصد کم ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 6لاکھ95 ہزار202 ہے، جن میں 3لاکھ 73ہزار8 سو 24مرد اور3 لاکھ 21ہزار 3سو78 خواتین شامل ہیں۔ پنجاب میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد5 کروڑ58 لاکھ21 ہزار5 سو22 ہے جن میں3 کروڑ13 لاکھ2 ہزار1سو84 مرد اور2 کروڑ45 لاکھ19 ہزار3 سو38 خواتین شامل ہیں۔ اس طرح رجسٹرڈ مرد اور خواتین ووٹرز کے درمیان فرق کی شرح12 فیصد ہے۔ سندھ میں رجسٹرڈ ووٹرز کی مجموعی تعداد 2 کروڑ64 لاکھ43 ہزار4 ہے جن میں1 کروڑ 14 لاکھ 44ہزار8 سو84 مرد اور91 لاکھ99 ہزار4 سو20 خواتین ہیں۔ یوں سندھ میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد مرد ووٹرز کے مقابلے میں 10فیصد کم ہے۔ بلوچستان میں مجموعی رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 37لاکھ2 ہزار4 سو40 ہے، جن میں 21لاکھ 37ہزار98 مرد اور15 لاکھ 65ہزار3 سو42 خواتین ہیں۔ اس تناسب سے مرد رجسٹرڈ ووٹرز کے مقابلے میں بلوچستان میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد16 فیصد کم ہے، اگر ایک نظر ماضی پر ڈالی جائے تو عام انتخابات 2013 کی انتخابی فہرستوں میں بھی رجسٹرڈ مرد ووٹروں کے مقابلے میں خواتین ووٹرز کی تعداد تقریبا سوا کروڑ کم تھی جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ رجسٹرڈ مرد ووٹرز کے مقابلے میں خواتین رجسٹرڈ ووٹرزکی تعداد بڑھنے کی بجائے کم ہوئی ہے، حالانکہ حالیہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملکی آبادی میں مردوں اور خواتین کی آبادی کے تناسب میں صرف ڈھائی فیصد تک فرق ہے۔ مرد اور خواتین رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں فرق کی بنیادی وجہ خواتین کے پاس کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز کا نہ ہونا ہے اور یہ امر نادرا کی کار کردگی پربڑا سوالیہ نشان ہے۔مزید جائزہ لیں توشناختی کارڈ نہ ہونے کی وجوہات جن میں خواتین کی اکثریت کا دیہی علاقوں سے تعلق، سیلاب ، زلزلہ جیسی قدرتی آفات اور ملک کے بعض علاقوں میں سیکورٹی آپریشنز،بد امنی کے باعث نقل مکانی وغیرہ سامنے آتی ہیں ، سماجی اور معاشی ڈھانچہ جس میں غربت، جہالت اور توہمات بھی دیہی خواتین کو شناخت کے حق سے محروم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔یہ امرخوش آئند ہے کہ الیکشن کمیشن ،نادرا کے اشتراک سے آج جس مہم کا آغاز کرنے جا رہا ہے اس کے دوران خواتین کے شناختی کارڈ بلا معاوضہ بنائے جائیں گے، جمعہ کا دن صرف خواتین کے شناختی کارڈ بنانے کیلئے مخصوص ہوگا جس کا شناختی کارڈ بنے گا وہ ایک خود کار نظام کے تحت ووٹر بھی بن جائیگا،اس مہم کی کامیابی کیلئے حکومت،متعلقہ اداروں، سیاسی جماعتوں ، ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی کو بھرپور کردر ادا کرنا چاہئے۔

اس ضمن میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں الیکشن کمیشن اورنادرا کودرکار وسائل کی فراہمی ممکن بنائیں۔اس وقت نادرا کے پاس ملک بھر کیلئے صرف ایک سوپانچ سے ایک سو دس تک موبائل رجسٹریشن وینز اور تقریبا پانچ سو رجسٹریشن کاؤنٹرز ہیں۔ ایک موبائل رجسٹریشن وین دن میں معمول کے دفتری اوقات میں زیادہ سے زیادہ پچاس کارڈ بنا سکتی ہے جبکہ ایک رجسٹریشن کاؤنٹر دن میں زیادہ سے زیاہ سوا سو کارڈ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر اگلے پانچ ماہ یہ مہم اسی رفتار اور موجودہ وسائل کے مطابق چلائی جائے تو بمشکل تیس سے چالیس لاکھ نئے شناختی کارڈ بنیں گے جبکہ اسی سے نوے لاکھ خواتین اوراس عرصے کے دوران ووٹر بننے کی عمر تک پہنچنے والے دیگرلاکھوں افراد پھر بھی ووٹر لسٹوں کا حصہ بننے سے محروم رہ جائیں گے جو ان کے بنیادی حق کی سنگین خلاف ورزی ہوگی۔ حکومت اس مسئلے کوہنگامی بنیادوں پر حل کرنے لئے تمام دستیاب وسائل فراہم کرے، نادراموبائل رجسٹریشن وینز اور رجسٹریشن کاؤنٹرزکی تعداد کودگنا کرے۔ نادرا دفاتر میں ہفتہ میں دو تعطیل کی بجائے صرف ایک کی جائے۔رات تک اوقات کار بڑھانے کیلئے نادرا اسٹاف کی دو شفٹیں بھی بنائی جاسکتی ہیں۔ اعلان کے مطابق سادہ شناختی کارڈ مفت بنانے کے وعدے پر سختی سے عمل کیا جائے۔ عوام خصوصا خواتین میں شناختی کارڈ کی اہمیت اور افادیت کا شعوراجاگرکرنے کیلئے خصوصی تشہیری مہم چلائی جائے ۔ سرکاری اور نجی ذرائع ابلاغ رضاکارانہ طور پر پبلک میسیجز شائع اور نشر کریں۔ حکومت متعلقہ ادارے اور سیاسی جماعتیں یاد رکھیں اگرسنجیدگی سے یہ اقدامات نہ کئے گئے تو اس مرتبہ بھی ملکی آبادی کا تقریبا نصف حصہ اپنے آئینی اور بنیادی انسانی حق سے محروم رہ جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے