ہمارے ہاں سیاستدان بننے کی بنیادی شرائط یہ ہیں کہ بندہ یا بندی شرم و حیا کو اچھی طرح گھول کر پی لے، رکھ رکھائو اور وضع داری کو گہرا دفن کردے، ڈھٹائی کی ہیوی ڈوز لیتا رہے۔ گزشتہ دنوں دو تماشے دیکھنے کو ملے ’’اک بہادر آدمی‘‘ اک ایسے ’’نااہل‘‘ کو سر کے بل ملنے گیا جس کی صاحب زادی نے اس ’’باغی‘‘ کی پارٹ ٹائم بغاوت پر اسے جی بھر کے بذریعہ ٹویٹ ذلیل کیا۔ ڈھیٹ، سازشی، احسان فراموش اور جانے کیاکیا قرار دیالیکن حضرت دست بستہ پھر حاضر ہوگئے۔دوسرا تازہ ترین تماشہ زرداری قادری ملاقات تھی کہ زرداری صاحب اچھے خاصے علامہ صاحب کو ’’جوکر‘‘ قرار دیتے رہے اور علامہ صاحب ان کے بچوں تک ہی نہیں پہنچے بلکہ گدی سے زبان کھینچ لینے کی سرعام دھمکی بھی دے ڈالی تھی۔ دوسری طرف ان کی اگلی نسلوں کی کارکردگی ملاحظہ فرمائیں۔ بلاول سے لے کر مریم نواز اورحمزہ شہباز تک سب نہلے پہ دہلے۔ اپنے باپوں کے ہم عمرحریفوں کے بارےایسی زبان استعمال کرتے ہیں کہ پاکستان پر ترس آتا ہے۔ ’’یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی‘‘یا پھر ’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ یہاں مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ والد محترم کے ملنے والوں میںجالندھر کے لوگوں کی کثرت تھی۔ ان میں ایک صاحب کا نام تھا اللہ دتہ جنہیں عموماً ’’دتہ دتہ‘‘ بلایا جاتا تھا۔ یہ والد صاحب کو ان کے نک نیم سے بلایا کرتے تھے۔ ایک دن اتفاق سے میں گھر کے باہر کھڑا تھاکہ تشریف لائے اور بولے ’’بیٹا جی! میاں صاحب کو بتائو دتہ آیا ہے۔۔‘‘ والد دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھے۔ میں نے اندر جا کر من و عن اسی طرح کہہ دیا ۔’’ابو جی! دتہ آیا ہے۔‘‘الٹے ہاتھ کا زناٹے دار تھپڑ کچھ اس طرح پڑا کہ ان کی انگوٹھی سے بائیں آنکھ کے ابرو سے خون بہہ نکلا۔ تھپڑ کے ساتھ ہی یہ جملہ….. ’’الو کے پٹھے! دتہ ہے وہ صرف میرے لئے، تمہارے لئے تایا دتہ ہے۔ دفع ہوجائو۔‘‘ یوں میری ’’تربیت‘‘تکمیل کو پہنچی کہ خود سےبڑوں کا احترام کیا ہوتا ہے۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی عرض کردوں کہ یہ تایا دتہ حیدر صاحب کےبڑے بھائی تھے اور حیدر صاحب اپنے وقت کے اک ایسے لیجنڈ تھے کہ لوگ ان کے ہاتھ چومتے تھے کیونکہ وہ نصرت فتح علی خان کے والد اور تایا استاد فتح علی خان اوراستاد مبارک علی خان کے ساتھ طبلے پر سنگت کرتے اورکمال کےفنکار تھے لیکن برا ہو سیاست کی غلاظت کا۔ ان سیاسی بچوںکو چھوٹے بڑے کی کوئی تمیز ہی نہیں۔ سیاست ان کے ادب آداب بھی کھا گئی کہ نہ تعلیم کا کوئی اثر اور اگر تربیت نام کی کوئی شے ہے تو وہ بھی بیکار۔ عمران خان، آصف زرداری، نواز شریف، شہباز شریف، فضل الرحمٰن، اسفند یار ولی اورطاہر القادری وغیرہ کا تعلق کم و بیش ایک جیسے ایج گروپ سے ہے۔ یہ جیسے چاہیں آپس میں گند گھولتے اور ایک دوسرے کے لتے لیتے رہیں لیکن بچے؟؟؟ کاش ان میں سے کوئی ایک تو ایسا ہوتا جوکہتا ’’جواب تو میں ہر طرح کا دے سکتا ہوں لیکن میری تربیت مجھے اس کی اجازت نہیں دیتی کہ میں اپنے سے بڑوں، اپنے سینئرز کے بارے سفلی زبان استعمال کروں۔‘‘’’پچھلی نسل تو پچھلی نسل، اگلی نسل سبحان اللہ‘‘اللہ پاک ہماری نسلوں کو ان نسلوں کی نحوست سے محفوظ رکھے۔ آمینمجھے تو آج تک یہی سمجھ نہیں آئی کہ میرے ساتھی ’’فلاں پارٹی کا رہنما‘‘ ، ’’’ڈھمکاں پارٹی کارہنما‘‘ جیسے جملے کیوں استعمال کرتے ہیں؟ کہاں کی راہ اور کیسی رہنمائی؟ ان میں سے دس فیصد بھی ’’رہنما‘‘ہوتے تو ہماری منزل یوں کھوٹی نہ ہوتی۔ یہ تو اکثر و بیشتر نوکریاں بیچنے والے، ترقیاتی فنڈز ہڑپنے والے، پارٹیاں بدلنے والے، پٹوار تھانیدار کاروبار چلانے والے وہ بہروپئے ہوتے ہیں جن کا نہ کوئی معیار نہ کوئی موقف۔ کوئی سروے تو کرے ان کے اصل ذرائع آمدنی کیا ہیں؟ ان کی تو انتہا یہ ہے کہ سیاست کی انتہا تک پہنچا ہوا، تین بار وزیراعظم رہنے کے بعد سرعام کہتا ہے….. ’’اگر میرے اثاثے میرے آمدنی سے زیادہ ہیں تو کسی کو اس سے کیا؟‘‘ اور کٹلری بوکس اس پر خوشامد میں لتھڑی ہوئی تالیاں بھی بجاتا ہے۔ الامان و الحفیظ۔یہ لیڈرز نہیں فلم ’’خزانے کی تلاش‘‘ کے کردار ہیں۔یہ لیڈرز نہیں ’’فارچون ہنٹرز‘‘ ہیں۔لیڈر اورلیڈشپ کیا ہوتی ہے۔”Being a general calls for different talents from being a soldier.”اور اس کا تو جواب ہی نہیں۔”Leaders think, they think because they are leaders. They are leaders because they think.”اور اب دیانتداری، غیرجانبداری سے تنہائی میں بیٹھ کر سوچیں ہمارے لیڈر کیا "Think” کرتے ہوں گے؟ پانامے یا سرے محل؟ یہ تو ہمارے ساتھ جو کر گئے سو کر گئے، خدا ان کی اگلی نسلوں سے ہماری نسلوں کو محفوظ رکھے۔