مذہب و سیاست: تشکیلِ جدید کی ضرورت …(1)

مسیحی دنیا نے مذہب و سیاست کا باہمی تعلق، جیسے تیسے، دریافت کر لیا اور اس پر مطمئن و شاداں ہے۔ عالمِ اسلام ہنوز سرگرداں ہے اور منزل کا سراغ نہیں مل رہا۔
مسیحی دنیا کے تجربات کا حاصل یہ ہے کہ مذہب و سیاست کی یکجائی ایک معاشرتی وبال ہے۔ اس سے معاشرہ تو برباد ہوا ہی، مذہب بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ مذہب کا دائرہ ریاست تک محیط ہوا‘ اس نے اہلِ مذہب کے ایک گروہ کو جنم دیا اور کلیسا، ایک مفاداتی گروہ (Interest group) کی علامت بن گیا۔ یوں مذہب کو سیاسی ہتھیار بنا دیا گیا‘ جسے اہلِ مذہب نے دنیاوی اقتدار کے لیے استعمال کیا۔ لہٰذا معاشرے اور مذہب دونوں کا مفاد اسی میں ہے کہ ان کا دائرہ کار الگ الگ ہو اور دونوں کے مابین ٹکراؤ نہ ہو۔
مسلم دنیا میں مذہب و سیاست کو یکجا کرنے کا نتیجہ بھی یہی نکلا۔ مذہبی سیاست نے ایک مفاداتی گروہ کو جنم دیا تو اس کا شمار مراعات یافتہ طبقات میں ہونے لگا۔ اِس نے ان مذہبی لوگوں پر بھی اثرات مرتب کیے جو سیاست کا حصہ نہیں تھے۔ انہوں نے بھی مواقع تلاش کیے کہ وہ بھی اس کھیل کا حصہ بن جائیں۔ اگر ہم اس بحث کو پاکستان تک محدود رکھیں تو گزشتہ چند سالوں میں وہ گروہ بھی اقتدار کی سیاست کا حصہ بننے کے لیے سرگرداں ہے جو اس سے پہلے اقتدار کی دوڑ میں شامل نہیں تھا۔ اس نے پہلے ناموسِ رسالتؐ اور اب ختمِ نبوتؐ کو نعرے کے طور پر استعمال کیا۔ اب گدی نشین سیاسی جلسے کر رہے ہیں اور اراکینِ اسمبلی کو اپنے ساتھ ملا رہے ہیں۔ یوں دن بدن مذہب و سیاست کے باہمی تعلق کا مسئلہ الجھتا جا رہا ہے۔ اس پسِ منظر میں یہ ناگزیر ہے کہ ہم اس معاملے کو سنجیدہ غوروفکر کا موضوع بنائیں۔
اس باب میں دو سوالات اہم ہیں: کیا ہم مسیحی تجربے سے سیکھ سکتے ہیں؟ مسلم معاشروں میں داخلی طور پر، اس حوالے سے جو نظریات پیش ہوئے یا جو تجربات کیے گئے، کیا وہ کسی ناقدانہ تجزیے کے مستحق ہیں؟ مسلم معاشروں کی بات پہلے۔
مسلم تہذیب کا آغاز فاتحانہ ہے۔ رسالت مآبﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں مسلمان جزیرہ نمائے عرب پر اپنا سیاسی غلبہ قائم کر چکے تھے۔ خلافتِ راشدہ میں فتوحات کا سلسلہ دراز ہو گیا۔ اس طرح ہماری تہذیبی و نفسیاتی اُٹھان ایک غالب قوت کے طور پر ہوئی۔ جب سیاسی زوال آیا تو غوروفکر کا سارا عمل اس سوال کے گرد گھوم رہا تھا کہ ہماری عظمتِ رفتہ کی بازیافت کیسے ہو؟ اس پر مستزاد اقتدار کی کشمکش، جس میں فریقین نے مذہب کو اپنی تائید میں پیش کیا۔ یوں مذہبی تعبیرات کا دائرہ سیاست کے گرد گھومتا رہا۔ دنیا کو دارالاسلام اور دارالحرب کے تناظر میں دیکھا گیا اور ریاست کے اندر اقتدار کی کشمکش نے خلافت جیسے ادارے کو دینی اساسات فراہم کیں۔ علم و عمل پر سیاسی مباحث نے غلبہ پایا۔ اس کا ردِ عمل ہوا اور سیاست سے گریز کا رجحان پیدا ہوا۔ تصوف نے اس رجحان کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ اب دین سیاست و قانون کا موضوع بنا یا پھر فرد کے تزکیے کا۔ فرد کو سیاست میں یا پھر اپنے داخل میں ڈوب جانے کا درس ملا۔
نوآبادیاتی دور میں جب احیا کی کوششیں شروع ہوئیں تو ہمارے پاس دو ماڈل تھے۔ ایک علمی و فقہی ماڈل جس نے سیاسی غلبے کے دور میں جنم لیا۔ دوسرا صوفیانہ ماڈل جو ایک سماجی قوت کے طور پر موجود تھا۔ بعض لوگوں نے دونوں کو جمع کرنے کی کوشش کی جیسے شیخ احمد سر ہندی یا سید احمد شہید۔ معاصر دنیا کے تجربات نے بعد کے ادوار میں دو نئے تصورات کو جنم دیا۔ ایک وہ جس نے معاشرے کو اجتماعیت کی اکائی مانتے ہوئے، تعلیم پر ساری توجہ مرکز کی۔ سر سید اس کے علم بردار تھے۔ دوسرا ‘سیاسی اسلام‘ جس نے قدیم فقہی ماڈل کی جدید اداروں کو مدِنظر رکھتے ہوئے، تشکیلِ جدید کی اور اس کے ساتھ، ایک نیا علمِ کلام ترتیب دیا۔ ایک علمِ کلام سر سید نے بھی دیا۔
آج ہم جس عہد میں زندہ ہیں، اس میں یہ تینوں ماڈل کام کر رہے ہیں، جن کے مظاہر میں تنوع ہے۔ سر سید ماڈل نے سیکولر نظریات کی صورت اختیار کی۔ سیاسی اسلام نے داعش تک ایک ارتقائی سفر طے کیا۔ تصوف نے خانقاہی نظام سے تبلیغی جماعت تک، کئی صورتیں اختیار کیں۔ یہ تمام تر نظریات و افکار دراصل دو دائروں میں گھوم رہے تھے: فرد اور ریاست۔ فرد کو مرکزیت بنانے کی کاوش بحیثیت مجموعی کسی سماجی تبدیلی کی بنیاد نہیں بن سکی۔ خانقاہی نظام اور تبلیغی جماعت کے ہوتے ہوئے بھی، معاشرتی نظام خیر کی علامت نہیں بن پایا۔ دوسری طرف سیاسی اسلام نے ایک الگ صورت اختیار کرتے ہوئے، مسلم معاشروں کا امن تہہ و بالا کر دیا۔ مغرب سے مستعار سیکولرازم کے لیے سر دست قبولیت کا کوئی امکان نہیں۔ اس لیے لازم ہے کہ مسلم معاشروں میں آج مذہب و سیاست کے باہمی تعلق کی تشکیلِ جدید ہو۔
اس ضرورت کو سب سے پہلے انڈونیشیا میں محسوس کیا گیا۔ نہضۃ العلما وہاں کی سب سے بڑی اور قدیم ترین مذہبی جماعت ہے۔ یہ انڈونیشیا کی تحریکِ آزادی میں متحرک رہی۔ استعماری قوتوں کے خلاف جہاد کیا۔ آزادی کے بعد بھی ماشومی جیسے مذہبی سیاسی اتحاد کا حصہ رہی۔ ایک وقت میں اس جماعت کی ایک شخصیت عبدالرحمان واحد انڈونیشیا کے صدر بھی رہے۔ نہضۃ العلما اپنے تجربات کے بعد اس نتیجے تک پہنچی کہ اقتدار کی سیاست مذہب کے لیے مفید ہے اور نہ ریاست کے لیے۔ یوں اس نے سیاست سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے، ریاست کے بجائے سماج کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ 2004ء میں جب میں پہلی بار انڈونیشیا گیا تو میں نے اس سارے عمل کو بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی۔
دوسرا تجربہ تیونس (تیونیسیا) میں ہو رہا ہے۔ یہاں کے فکری رہنما راشدالغنوشی، جو سیاسی اسلام کے علم بردار تھے، بھی اس نتیجے تک پہنچے کہ مذہب و سیاست کی آمیزش دونوں کے لیے خطرناک ہے۔ وہ ‘النہضہ‘ کے راہنما تھے جو سیاسی اسلام کی علم بردار تھی۔ انہوں نے اب سیاست کو مذہب سے الگ کرتے ہوئے، مسلم ڈیموکریٹس ‘ کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی ہے۔ یہ چونکہ ایک نسبتاً نئی جماعت ہے، اس لیے ان دنوں غنوشی دنیا بھر میں بحث کا موضوع ہیں۔ ان کے افکار پر کتب لکھی جا رہی ہیں اور ان کے فکری ارتقا کو سمجھا جا رہا ہے۔
یہ ان لوگوں کے تجربات ہیں جنہوں نے مذہبی سیاست کی۔ یا یوں کہیے کہ دیانت داری کے ساتھ ‘اسلامی نظام‘ قائم کرنا چاہا۔ وہ بھی اسی نتیجے تک پہنچے کہ دونوں کو یکجا رکھنے کے موجود ماڈل نہ صرف نتیجہ خیز نہیں رہے، بلکہ اس کے برخلاف مضر ثابت ہوئے۔ جن لوگوں نے علمی سطح پر اس سارے عمل کو سمجھا انہوں نے اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ جماعت اسلامی ، تبلیغی جماعت اور تصوف پر جو ناقدانہ لٹریچر سامنے آیا، اس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ نہ صرف ان ماڈلز کے علمِ کلام پر اعتراضات ہوئے‘ بلکہ جب ان کے سماجی اثرات کو دیکھا گیا تو اس کے نتائج بھی خوش گوار نہیں تھے۔ مثال کے طور پر ان ماڈلز کے زیر اثر تیار ہونے والے افراد کے سماجی کردار کو پرکھا گیا تو اندازہ ہوا کہ اس سے دین کو کوئی فائدہ ہوا نہ سیاست کو، الا ما شااللہ۔ ان لوگوں میں برصغیر کے مو لانا وحیدالدین خان اور انڈونیشیا کے نور خالص مجید سمیت بہت سے مفکرین شامل ہیں۔
کم و بیش ایک صدی پر مشتمل یہ سفر آج متقاضی ہے کہ نئے حالات میں، مذہب و ریاست کے باہمی تعلق کی تشکیلِ نو ہو۔ اس کے لیے چند سوالات کے جواب ضروری ہے۔ مثال کے طور پر: نہضۃ العلما نے مذہبی سیاست سے رجوع کیا تو کس ماڈل کو اختیار کیا؟ نو خالص مجید اور راشد غنوشی کیا کہتے ہیں؟ ہمارے اپنے تجربات کا حاصل کیا ہے؟ بریلوی مسلک میں ابھرنے والی اس نئی لہر کے محرکات کیا ہیں؟ انشااللہ آنے والوں کالموں میں ان سوالات پر بات ہو گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے