میں اس ملک کا بدنصیب باسی ہوں جہاں تعلیم بھی پیسوں سے ملتی ہے، اگر میرے پاس پیسے نہیں تو میں تعلیم خرید نہیں سکتا ، میری جہالت تب دور ہو گی جب میری جیب وزنی ہو گی ، خالی جیب سے تعلیم حاصل کرنے کا خواب دیکھنا بھی بیوقوفی ہے ، میری ریاست پیسہ تعلیم پر لگانے کی بجائے جنگی آلات خریدنے پر لگا رہی ہے ، قومیں جنگوں سے نہیں تعلیم سے عروج پاتی ہیں ،
افسوس ہمارے ہاں تعلیم کے نام پر کاروباری ادارے وجود میں آ چکے ہیں ، غریب بندہ پرائیویٹ اسکول کالجز کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا ، شاید دیکھتا بھی ہو مگر حسرت بھری نگاہوں سے ہی تکتا ہو گا ، پرائیویٹ اداروں کے سامنے سرد آہ بھر کے گزر جاتا ہو گا ، تعلیم میں بھی تقسیم اس کا دل جلاتی ہو گی ، کسی بچے کے پاس کتابیں ہی نہ ہوں اور کسی کے پاس اسکول کالج جانے کے لیے گاڑیاں ہوں تو درد اٹھتا ہے، پرائیویٹ اداروں سے کیا گلہ ؟ وہ بنے ہی پیسہ کمانے کے لیے ہیں ، سوال سرکار سے ہے ، یہ میری سرکار کو کیا ہو گیا ہے ؟
محسوس یہ ہو رہا ہے کہ غریبوں کے بچوں پر سرکار تعلیمی دروازے بند کرنے جا رہی ہے ، اب تعلیم پر بھی سرمایہ داروں کا حق ہو گا ، سرکار مظالم ڈھا رہی ہے اور ہمارا میڈیا ستو پی کر سویا ہوا ہے ،
میڈیا کی توجہ سیاست کی طرف ہوتی ہے تعلیم کے حوالے سے خبریں شائع کرنا شاید انکی پالیسی کا حصہ ہی نہیں ، سوشل میڈیا بھی الیکڑانک و پرنٹ کے زیر اثر آ گیا ہے ، یہاں بھی پاپولر موضوعات کی طرف توجہ دی جاتی ہے ، ہم اپنی آنے والی نسلوں کے بارے میں نہ سوچتے ہیں اور نہ آواز بلند کرتے ہیں ، اگر کوئی آواز بلند کرے تو ہم اسکی آواز میں آواز بھی نہیں ملاتے ،
سوشل میڈیا کے دوستوں کو شاید معلوم ہو گا کہ پشاور یونیورسٹی کے طلباء چودہ دنوں سے احتجاج پر ہیں ، انکا مطالبہ ہے کہ یونیورسٹی ہر بار دس فیصد فیسوں میں اضافہ کرتی جا رہی ہے ، دو ہزار چودہ میں فیس پچیس ہزار تھی اب اڑتالیس ہزار ہو گئی ہے ، امیر حیدر ہوتی نے یونیورسٹی کے لیے جو بسیں دی ہیں وہ بھی افسران کے بچوں کی ملکیت ہیں ، انتظامیہ مسائل سے غافل ہے ،
اہل دانش سے سوال ہے کہ اس ساری صورتحال میں ایک مزدور کیا کرے ؟ اس ملک میں مزدور کی تنخواہ چودہ ہزار روپے ہے ایک مزدور اپنے بچے کو یونیورسٹی بھیجنا چاہے اور اسے تعلیم دلوانا چاہے تو وہ خرچ کیسے اور کہاں سے ادا کرے گا ؟ سرکاری یونیورسٹیوں کا رخ کرنے والے سرمایہ داروں کے بیٹے نہیں ہوتے بلکہ ان غریب اور دیہاتی ماوں کے بیٹے ہوتے ہیں جو اپنا زیور بیچ کر بیٹوں کو تعلیم دلواتی ہیں ،
جناب خان صاحب میرا مستقبل چودہ روز سے احتجاج پر ہے ، میری قوم کے معمار اپنا حق مانگ رہے ہیں انہیں ان کا حق دیجئے ، ذرا نوازشریف و شہباز شریف کو آرام کا سانس لینے دیں ، پشاور جائیں طلباء کے مسائل سنیں اور انکو حل کرنے کی کوشش کریں ،
اللہ کرے یہ آواز عمران خان کے کانوں تک پہنچ جائے ، اگر نہیں پہنچتی تو میں اپنے نوجوانوں کے ساتھ یہ صدا لگانے کو تیار ہوں زور سے چیخا جائے تو بہرے بھی سن لیتے ہیں ، آئیے بہروں کو صدائیں سنائیں، اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنائیں ، باقی یونیورسٹیوں کے طلباء بھی اٹھیں تعلیم فری کا نعرہ لگاتے ہوئے میدان میں کود جائیں پبلک آپ کے پیچھے ہو گی، ریاست کی ذمہ داری ہے وہ شہری کو تعلیم، صحت، چھت، روزگار، اور امن دے ، سوال تو یہ ہے کہ میری ریاست آخر مجھے کیا دے رہی ہے ؟ کیوں نا ان حکمرانوں کے خلاف کھڑا ہوا جائے جن کی اولادیں تو باہر پڑھتی ہیں اور رعایا کے بچے فیسوں میں کمی کا چودہ دن سے رونا رو رہے ہیں ؟