جمہوریت :ٹریک ٹو آپشن کی ضرورت

عزیزان من، 2017کا برس بھی کنارے آن لگا۔ یہ جوانی تو بڑھاپے کی طرح گزری ہے۔ جوں توں شام گزاری لیکن دن کو سوا بے حال ہوئے۔ ہمارے بعد آنے والے مڑ کر اس برس کی تقویم کھولیں گے تو کیا دیکھیں گے؟ اسلام آباد کا دھرنا ریاست کو بری طرح کھدیڑنے کے بعد اخبارات کے صفحہ اول سے غائب ہو گیا۔ لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب… سات لاشے اور واپسی کا کرایہ بانٹتے ہوئے ایک تصویر۔ ایک وڈیو بھی یہیں کہیں گردش میں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایبٹ آباد کا جوان رعنا پانچ کروڑ روپے کی تھیلی ارپن کر رہا ہے… خدا بہتر جانتا ہے۔ عام طور پر اس طرح کے شواہد سیاق سباق سے کاٹ کر پیش کئے جاتے ہیں۔ ایک تصویر ہمارے بچپن میں بہت دیکھنے کو ملتی تھی۔ اندرا گاندھی ایک لاکھ روپے کی تھیلی باچا خان کو پیش کرتے ہوئے… یہ اچھوں کو برا کہنے کا بھونڈا انداز تھا۔ پلاسٹک کرنسی اور بٹ کوائن کا زمانہ ہے۔ اگر کسی کو پس پردہ کسی کی مالی اعانت مقصود ہے تو یوں بغداد کے دربار کا منظر بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ مہران بینک اسکینڈل والے یونس حبیب کا فارمولا موجود ہے۔ چودہ کروڑ کی گتھی سلجھانے میں ربع صدی گزر گئی… بڑے حساس نام اس میں آتے تھے، کوئی اقامہ کا معاملہ تو نہیں تھا کہ غیر موصول تنخواہ پر پتہ کٹ جاتا۔ اسلام آباد کے سات مقتولوں کی مٹی بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی اور ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کی قبرکشائی ہو گئی۔ آصف علی زرداری بڑے حساس رہنما ہیں۔ فوراً قادری صاحب کی دل آسائی کو پہنچے ہیں۔ ادھر فیصل آباد میں سیال شریف کے عقیدت مندوں نے بھرے جلسے میں اپنے استعفے پیر حمید الدین سیالوی کو پیش کر دئیے۔ واقعی، عقیدت کا صحیح تقاضا یہی ہے کہ ٹکٹ جیتنے والی پارٹی سے لیا جائے، حلف اسپیکر کے سامنے اٹھایا جائے۔ ساڑھے چار برس اقتدار کا مزہ لیا جائے اور پھر… نئی سیاسی فضا دیکھ کر پیر صاحب کو استعفیٰ پیش کیا جائے۔ معاف کیجئے گا، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا تو نام بدنام ہے۔ یہ وہی یونینسٹ پارٹی کی 1940 والی سیاسی ثقافت ہے جو ڈپٹی کمشنر ضلع ہذا کے زیر ہدایت کام کرتی ہے۔ حسب ہدایت مسلم لیگ کے جلوس میں شامل ہو جاتی ہے، حکم ملنے پر سر جھکائے ری پبلکن پارٹی میں چلی جاتی ہے۔ کنونشن لیگ کی شان بڑھاتی ہے۔ جونیجو لیگ کا پرچم اٹھاتی ہے۔ قاف لیگ کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے۔ یک نکاتی سیاست ہے۔ اور وہ نکتہ واحدہ آپ خود تلاش کر سکتے ہیں۔ زحمت کیجئے۔ لبیک تحریک، عوامی تحریک، ملی مسلم لیگ، سیالوی تحریک، پاک سرزمین پارٹی، پرویز مشرف اتحاد، سندھ وڈیرا اتحاد کے نقاط کو پنسل سے جوڑ لیجئے۔ دسمبر 2017ء کی سیاسی تصویر مکمل ہو جائے گی۔ اس تصویر کے پس منظر میں ایک دھمکی پوشیدہ ہے اور آگے بے بسی کا مقام ہے۔ دھمکی اور بے بسی کی لکیر پر کھڑے بیس کروڑ افراد ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں، اب کیا ہو گا؟
دھمکی کا قصہ سمجھنے کے لئے جھنگ میں شہباز شریف کی تقریر پر غور فرمائیے۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں، ججوں، جرنیلوں، بیورو کریٹس اور پارلیمنٹ سب کو مل کر نیا معاہدہ لکھنا ہوگا۔ اگر پاکستان کو قائد اعظم اور اقبال کا پاکستان بنانا ہے تو سب اسٹیک ہولڈرز کو بات کرنا ہو گی۔ حضور، وسیع تر مکالمے کی یہ بات تو سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے اکتوبر کے پہلے ہفتے میں کوئٹہ میں کہی تھی۔ اور اس پر آئی ایس پی آر سے مثبت ردعمل بھی آیا تھا۔ تب آپ خاموش رہے نیز یہ کہ آصف علی زرداری صاحب نے بھنا کر رضا ربانی کو آزاد دانشور قرار دے دیا۔ یہ کہاں کی معقولیت ہے کہ 2006ء میں مشکل وقت ہو تو محترمہ بے نظیر بھٹو اور محترم نواز شریف میثاق جمہوریت پر دستخط کریں۔ اپنے دور اقتدار میں محترم قمر الزمان کائرہ صاحب پانچ برس تک مفاہمت کی دہائی دیتے رہیں۔ اب ایک مدت سے کان ترس گئے ہیں۔ کائرہ صاحب نے مفاہمت کا جمہوری حسن بیان نہیں کیا۔ گویا جب مرغوب خاطر ہو، محترمہ بے نظیر بھٹو کو نیلسن منڈیلا بنا لیا جائے اور جب مفاد کی پکار کچھ اور ہو تو محترمہ شہید کو مالکم ایکس کا روپ دے دیا جائے۔ شہباز شریف صاحب کی تجویز بذات خود جمہویت کے وسیع تر مفاد میں بنیادی نکتے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا پس منظر سمجھنا چاہیے۔
2008ء میں نو برس طویل آمریت کا اختتامی مرحلہ تھا۔ یہ بلا محترمہ بینظیر بھٹو کی جان لے کر ٹلی۔ 2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی۔ پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی واپسی ہوئی۔ مسلم لیگ قاف کا بولورام ہو گیا۔ یہ تینوں معاملات ان حلقوں کے لئے ناگوار تھے جنہوں نے ستر برس سے قومی مفاد کی خود ساختہ تشریح کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ نو مارچ 2008ء کو بھوربن کا معاہدہ جمہویت کے لئے بہترین خبر تھی۔ یہ معاہدہ آزاد عدلیہ، این آر او، کیری لوگر بل، سوئس اکاؤنٹ اور میمو گیٹ اسکینڈل کی نذر ہو گیا۔ 2013ء میں مسلم لیگ نواز کی کامیابی 2008ء کے جمہوری عمل کا تسلسل تھی لہٰذا ناقابل قبول تھی۔ اس دوران طالبان سے مذاکرات کی خاک اڑائی گئی۔ ایک سال بعد انتخابی دھاندلی یاد آ گئی۔ اس پر دھرنے دیئے گئے۔ کسی نے طاہر القادری صاحب سے نہیں پوچھا کہ حضور آپ نے الیکشن ہی نہیں لڑا تو آپ سے دھاندلی کیسے ہوئی؟ دہشت گردی سے کرپشن کا تعلق دریافت کیا گیا۔ کراچی میں سیاسی چائنا کٹنگ کی کوشش ہوئی۔ کچھ توسیع پسندی کے معاملات تھے۔ اور پھر پانامہ ہو گیا۔ وہی خواب معتبر تھے جو خیال تک نہ پہنچے… یہ سیاسی بیان اور ٹویٹ کی کشمکش ہے۔ یہ صحافت اور کیبل آپریٹرز ایسوسی ایشن کا جھگڑا ہے۔ یہ سیاسی جماعت اور ہنگامی تحریک کا مقابلہ ہے۔ یہ پارلیمانی جمہوریت اور ٹیکنوکریٹ گھونسلے کی لڑائی ہے۔ یہ صوبائی خود مختاری اور مرکزیت پسندی کا مجادلہ ہے۔ ایک طرف آئین میں آٹھویں اور سترہویں ترمیموں کی روایت ہے اور دوسری طرف اٹھارہویں آئینی ترمیم کی میراث ہے۔ یہ جھگڑا ڈی چوک اور فیض آباد میں طے نہیں ہو گا۔ یہ اختلافات ٹیلی وژن کے ٹاک شو میں طے پانے کے نہیں ہیں۔ اس کے لئے میز پر بیٹھنا ہو گا۔ سمجھنا چاہئے کہ ایک عالمی طاقت کے نمائندے کا ’’سرد استقبال‘‘ کرنے سے قومی مفاد کی کماحقہٗ پاسداری نہیں ہو سکتی۔
جمہوریت کی موٹر کار کا مقابلہ کرنے کے لئے مقامی چنگ چی سڑک پر اتاری جائے گی تو ٹریفک کے مسائل پیدا ہوں گے۔ گھر میں فساد کی فصل سر اٹھا رہی ہو تو قومی
مفاد خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ پاکستان کی منتخب سیاسی اور جمہوری قوتیں پاکستان کا اصل اثاثہ ہیں۔ ان قوتوں میں اعتماد کا پل باندھنے کے لئے آئینی دائرے میں رہتے ہوئے قومی نصب العین پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ پاکستان تمام انسانوں کی برابری، بنیادی حقوق، تنوع اور اختلاف رائے کے احترام اور کسی بھی شکل میں امتیازی سلوک سے تحفظ پر مضبوطی سے قائم ہے۔ سرکار، یہ محض کہنے کی باتیں تھوڑی ہیں۔ شہریوں کی برابری اور امتیازی سلوک کی مخالفت کو قومی نفسیات کا حصہ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ شہریوں کے حق حکمرانی پر بامعنی مکالمہ کیا جائے۔ 2017ء اپنے اختتام کو آن پہنچا۔ آئین کے مطابق چند ماہ میں قومی انتخابات ہونا ہیں۔ یہ کاغذ کے سپاہی تراشنے کا وقت نہیں۔ یہ وقت ہے کہ قومی استحکام، جمہوریت اور معاشی ترقی کے اہداف پر اتفاق رائے کے لئے ٹریک ٹو آپشن کو سنجیدگی سے موقع دیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے