سیاسی مقدمے بازی کا دلچسپ مرحلہ اس وقت آیا‘ جب عمران خان کو تشدد کے مقدمے میں ملوث کر کے پھر بلایا گیا۔کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ عمران خان ایک مقدمے کی پیشی بھگتنے گئے تو حسب روایت ان کے ساتھ‘ چند پارٹی کارکن بھی عدالت کے باہر پہنچ گئے۔ اتنی سی بات پر ان کے مخالف فریق نے ‘عمران پر تشد د کامقدمہ قائم کر دیا۔ ان دنوں سیاسی فریق ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ بازی میں بڑے مستعد ہیں۔ سب سے زیادہ مقدمے نااہل وزیراعظم‘ میاں نوازشریف کے خلاف قائم کئے گئے ۔ان کے خلاف قائم شدہ مقدموں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔لیکن ان مقدموں کی دوڑ میں حریف بہت پیچھے ہیں۔ابھی تک وہ نواز لیگ کے ”مجاہدوں‘‘ کو کسی مقدمے میں سزا نہیں دلا پائے۔سب سے بہادر” جیالا‘‘ ن لیگ کے وزیر خزانہ‘ اسحاق ڈار صاحب ‘ہسپتال میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ بیوروکریسی میں عام طو رپر یہ کہا جاتا ہے کہ اسحاق ڈار‘ انتہائی سخت جان وزیر ہیں۔ دل کے مرض میں بھی غیر حاضر نہیں ہوئے۔برسوں وزیر خزانہ رہے لیکن ان کی حاضری کے رجسٹر میں ایک دن کی علالت یا تھکاوٹ نہیں۔سیکریٹریٹ میں کہا جاتا ہے کہ ڈار صاحب مارشل آرٹ میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔مارشل آرٹس صرف جسمانی ہی نہیں‘ ذہنی بھی ہوتا ہے۔ان کے مارشل آرٹ کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی اور دیگر ان گنت‘ وزارتوں کی سب کمیٹیوں کی ‘ صدارت کرتے ہیں۔صبح ہوتے ہی 20,25 مختلف کمیٹی رومز میں حاضریاں لگاتے ہیں۔یہ ڈارصاحب کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ کون سی کمیٹی کو صدارت کا اعزاز بخشیں؟
تمام شعبوں کی کمیٹیوں کے اراکین کو یہ پتہ نہیں ہوتا تھاکہ ڈار صاحب کس وقت‘ صدارت کے لئے تشریف لائیں گے؟وہ جس کمیٹی کی صدارت کر رہے ہوتے‘ باقی کمیٹیوں کے سیکریٹریز‘ باہر انتظار گاہ میں منتظر ہوتے ۔ جیسے ہی ڈار صاحب میٹنگ روم سے باہر نکلتے‘ بیس پچیس سیکریٹریز جمپ لگا کر کھڑے ہو جاتے اور ڈار صاحب جس طرف کا رخ کرتے ‘ منتظر سیکریٹریز کا پورا جتھا‘ ان کے تعاقب میں باادب چل پڑتا ۔آخر میں وہ جس سیکریٹری کے ساتھ‘ اگلی میٹنگ میں شرکت کے لئے‘ دروازے کے اندر داخل ہوتے‘ شرکت کرنے والا سیکریٹری میٹنگ روم میں داخل ہو جاتا اور باہر کی انتظار گاہ میں ‘ دوسری میٹنگوں والے سیکریٹریز‘ داخل ہو جاتے ۔ جب سے ڈار صاحب پر مقدمے چلے ہیں‘ کسی کمیٹی کے سیکریٹری کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ‘ کب کس کمیٹی کی میٹنگ کی صدارت کریں گے؟ اور کب ان کی حاضری لگے گی؟سنا ہے کہ ڈار صاحب اپنی ماتحت کمیٹیوں کی صدارت کے لئے جاتے جاتے‘ تھکنے کے بعد تنگ آکر‘ بیرون ملک علاج کے لئے برطانیہ سدھار جاتے ہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ برطانیہ میں سنگ تراشی بڑے کمال کی ہوتی ہے۔ڈار صاحب نے ایک سنگ تراش کے پاس جا کر‘سودا کیا کہ وہ کسی ہسپتال کے کمرے میں پلنگ پر لیٹے ہوئے‘ مریض کی صورت میں‘ ان کاایک بت تیار کر سکتے
ہیں؟اس بت کے جسم میں کسی دوا کاانجکشن نہ لگا ہو۔ پتھر کے مجسمے کا لباس تو ظاہر ہے بدلا نہیں جا سکتا۔ا نہیں نصف آستینوں کا ایک ہی لباس پہنا کر سیدھا لٹا دیں۔ا ن کی آستین کے بازو اسی طرح ہرروز نظر آتے رہیں‘ جیسے کہ پہلے دن تھے۔ کوئی شکن نہیں پڑی ہو۔کوئی سلوٹ نہیں پڑی ہو۔کوئی کروٹ نہ بدلی جاتی ہو۔ دونوں ہاتھ جس پوزیشن میں روز اول سے ہیں‘ ابھی تک اسی حالت میں ٹکے ہوں۔ اور ٹانگیں بھی منہ کی طرح سیدھی ہو ں ۔ جب ان کا کوئی ہم جماعت ‘لندن میں دکھائی دے تو وہ‘ اس کے ساتھ میٹنگ میں شریک بھی نظر آتے ہوں ۔ پاکستانی ناظرین و قارئین! جب ان کی کوئی متحرک یا طبع شدہ تصویر دیکھتے ہیں‘تو حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ وہ ایک ہی د ن اور ایک ہی وقت میں‘ ہسپتال کے پلنگ پر ‘ پتھر کے مجسمے کی صورت نظر آتے ہیں اور اسی دن کسی میٹنگ میں اپنے سابق کولیگز کے ساتھ بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے دوست چین نے ہمارے ساتھ ‘ آزاد ہونے کے بعد‘ ہر شعبے میں بے انتہا ترقی کی ہے لیکن ہماری ترقی صرف وزیر خزانہ کی اس مہارت میں ہے کہ وہ بیک وقت اٹھائیس تیس کمیٹیوں کی میٹنگوں کی صدارت کرتے ہیں۔ ہر صدارت کا ٹی اے ڈی اے لیتے ہیں۔ معلوم نہیں انہیں کون سا وکیل میسر آیا ہے؟ اگرڈار صاحب کی وزارت خزانہ کے دور کا‘ ٹی اے ڈ ی اے جمع کر لیں تو ان کے کھاتے میں اتنی رقم جمع ہو چکی ہو گی کہ وہ نا اہل وزیراعظم کے وکیلوں کی فیس چکا دیں۔ویسے میںڈ ار صاحب کی چستی اور چالاکی کا سبب نہیں جا ن سکا کہ جب ڈار صاحب کے ساتھیوں سے ان کی کارستانی کے ڈبے منگوائے گئے تو انہوں نے اپنا ڈبہ عدالت میںکیوں بھیج دیا؟ویسے یہ ڈبہ کس کا تھا؟سنا ہے عرب ملکوں نے بھی وزیر خزانہ‘ رکھنا شروع کر دیا ہے۔