خودی اور خود پسندی

خودی اجتماعیت میں اپنی "انفرادیت” برقرار رکھنے جبکہ خود پسندی اجتماعیت میں "نرگسیت” اختیار کرنے کا نام ہے. خودی معاشرے میں اپنی حیثیت و ھستی برقرار رکھنے کی سوچ جبکہ خود پسندی معاشرے پر اپنی اھمیت و بالادستی قائم کرنے کا خواب ہے. خودی نفس کی قید سے حریت و آزادی کو جبکہ خود پسندی ذات کے خول میں محبوس و مقید ہونے کو کہتے ہیں. خودی سماجی روایات کی پاسداری اور دینی اقدار کی پیروی جبکہ خود پسندی معاشرتی روایات سے بغاوت اور دینی اقدار سے انحراف کا نام ہے. خودی روحانیت کی اطاعت اور خود پسندی مادیت کی غلامی ہے. بقولِ فاروق درویش

خودی کا پہلا سبق انقــــلابِ ذاتِ بشر
خودی سے بندہ مومن کی تابناک سحر

خودی نہیں تو رگوں میں رواں لہو بھی جمود
خودی سے جان بلب زندگــــــی بھی محوِ سفر

خودی دراصل خود آگہی ہے اور خود آگہی درحقیقت خدا آگہی ہے جیسا کہ روایت ہے "من عرف نفسہ فقد عرف ربہ” یعنی”جس نے خود کو پہچان لیا اُس نے اپنے خدا کو پہچان لیا” خودی دراصل معرفتِ خدا ہے. یہ خدا دوستی، خدا پرستی اور خدا بینی کا نام ہے جو خود شناسی و خود آگاھی کا مرکب ہے اور خود مختاری، خود اعتمادی اور خود داری کو مہمیز دیتا ہے. خودی حقیقت میں خدا شناسی ہے. خودی عقابی روح اور خود پسندی کرگسی سوچ کا نام ہے. دونوں اسی جہاں کے پرندے ہیں، دونوں ایک فضا می‍ں اڑتے ہیں لیکن بقولِ علامہ محمد اقبال

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور

خود پرستی کا مطلب ہے غرور و تکبر کرنا اور اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا، بلند تر اور اعلٰی ترین سمجھنا جس کو اردو میں "انا” اور انگریزی میں "ایگو” کہتے ہیں جبکہ خودی کامطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچان سکے اسی کا دوسرا نام خود شناسی بھی ہے جو احساس کمتری اور احساس برتری کے مابین توازن کی خفیف لکیر ہے. در حقیقت جب کوئی بندہ جان لیتا ہے کہ انفرادی طور پر میں کچھ بھی نہیں ہوں لیکن اجتماعی طور پر میں بہت کچھ ہوں تو اس کی نفسیات سے برتری کی "میں” ختم ہو جاتی ہے. اور وہ مطلق العنانیت اور مطلق انانیت کی بجائے انسانیت و اجتماعیت کے نظم و ضبط کا حصہ بن جاتا ھے. خودی فقر و درویشی کا راستہ اور جرات و حمیت کی شاہراہ ہے، اسی کیفیت کی تعبیر علامہ محمد اقبال نے یوں فرمائی ہے.

ميرا طريق اميری نہيں فقيری ہے
خودی نہ بيچ غريبی ميں نام پيدا کر

خود پسندی در اصل خود پرستی ہے اور خود پرستی درحقیقت خدا دشمنی ہے. ابلیس نے حضرت آدم کی تعظیم سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا "انا خیر منہ” یعنی "میں اِس سے بہتر ہوں.” اسی "میں” کا نام "انا” ہے اور یہی "انانیت” آدمیت کے روپ میں شیطانیت کا مظہر ہے. خود پسندی در اصل خود بینی، خود نمائی اور خود رائی کا مجموعہ ہے جو خود غرضی اور خود سری کو جنم دیتا ہے. انسان کی یہ خود فریفتگی در حقیقت خود فریبی ہے جس کا آغاز خود کلامی سے ہوتا ہے اور نتیجہ خود سوزی اور خود کشی کی صورت میں نکلتا ہے. خود کو خدائی اختیارات کا حامل سمجھنا اور خدا کی خدائی کو خود سے کم تر سمجھنا خود پسندی ہے. اسی حالت کی عکاسی شاھدہ مجید نے یوں کی ہے.

ذرا سا فرق خودی اور خود پسندی کا
فریبِ نفس میں انساں سمجھ نہ پائے گا

خودی کے زعم میں خود کو خدا لگے اپنا
فریب یہ بھی تجھے آئینہ دکھائے گا

خودی میں شانِ یکتائی پیدا کرنے کے لئے اطاعت الٰہی، ضبطِ نفس اور نیابت الہٰی کا جذبہ لازمی ہے. تصوف کی اصطلاح میں یہی اصلاح ھے اور معرفتِ حق، معرفتِ نفس اور معرفتِ رب اسی کیفیت کے معروف نام ہیں. یہ رب سے قربت اور شیطان سے رقابت کا مقام ہے، یہ آدمیت کا حسن و جمال اور انسانیت کا اوجِ کمال ہے جس کے متعلق علامہ اقبال نے فرمایا تھا.
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے