فاٹا پرسیاست

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے گزشتہ چندسالوں سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں اورگزشتہ چنددنوں سے پاکستانی سیاست میں فاٹاکے حوالے سے ہلچل مچی ہوئی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بننے سے لے کر آج تک قبائلی علاقے کو ریاست نے نظر انداز کیا جو تھوڑی بہت توجہ ملی وہ بھی اس کی مخصوص تزویراتی اہمیت اور حیثیت کی بنا پہ ملی جو کچھ تھوڑی بہت ترقی ہوئی تھی نہ صرف وہ تباہ ہوئی بلکہ بنیادی قبائلی معاشرتی اقدار بھی درہم برہم ہوئیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ پورا خطہ بنیادی ترقی سے محروم ہو کر صرف عسکری مقاصد تک محدود رہ گیا۔

فاٹاکے عوام کے ساتھ زیادتی کی سنگین مثال تقریبا ایک صدی سے لاگو فرنٹیئر کرائم ریگولیشنز ہے۔پاکستانی آئین سے الگ ، فاٹا کا نظم و نسق ایف سی آر سے چلایا جا رہا ہے۔ اس قانون کے تحت اگر کوئی علاقے میں کسی کو قتل کرے تواس کو جرم نہیں ماناجاتا لیکن اگر کسی نے سرکار کے خلاف اپنے جائز حقوق کے لئے بھی احتجاج کرنے کی کوشش کی تو اسے سنگین جرم سمجھا جاتاہے۔ فاٹا میں عوام کے مجرم کو نہیں، سرکار کے مجرم کو سزا ملتی ہے۔ کسی ایک فرد کے جرم کی سزا صرف اس کے پورے خاندان کو ہی نہیں بلکہ پورے قبیلے کو دی جاتی ہے۔ جس میں قبیلے کے کسی بھی بالغ مرد کو غیرمعینہ مدت کے لئے پابند سلاسل کرنا، اس کی جائیداد اور کاروبار کو ضبط کرنا وغیرہ شامل ہے۔
یقینا قبائلی عوام نے ان گنت صعوبتیں برداشت کیںمگرانکے لہجے میںلغزش تک نہیںآئی مگراس سے بھی انکارنہیںکیا جاسکتاکہ ماضی کی حکومتوںنے اس خطے کوقومی دھارے میںلانے کی بالکل سعی نہیںکی جس کے باعث قبائل میںایک اضطراب پایاجاتاتھا۔

1947 کے بعد کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود اختیارات کی مرکزیت بر قرار ہے اور فاٹا کے لیے الگ قوانین ایف سی آر کے تحت موجود ہیں۔فاٹا خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کے ماتحت نہیں ہے اختیارات صوبے کے گورنر کے پا س ہیں جنہیں وہ صدر پاکستان کے نمائندے کے طور پر استعمال کرتا ہے ۔وفاقی سطح پر کچھ اختیارات ریاستوں اور سرحدی امور کی وزارت کے پا س ہیں جو وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے ۔فاٹا سیکرٹریٹ اور فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی جن کا قیام 2006 میں عمل میں آیا وہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے زیر نگرانی کام کرتے ہیں جو گورنر اور کے پی کے چیف سیکرٹری کے ماتحت ہے ۔اس طرح فاٹا میں ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے اضافی انتظامی سطحیں موجود ہیں۔
1947 سے ہی فاٹا میں سیاسی اصلاحات میں روڑے اٹکائے جاتے رہے اور تھوڑی بہت اصلاح ہی ہو سکی ۔اگرچہ فاٹامیں کوئی بڑاترقیاتی منصوبہ نہیں شروع کیاجاسکاہے لیکن گزشتہ چندسالوں میں فاٹاکے حوالے سے چنداصلاحات بھی کی گئی ہیں جن میں2011 کو ہونے والی اصلاحات کے تحت ہر ایک کو ووٹ کا حق، سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور انفراد ی جرائم پر پورے خاندان کو سزا کا خاتمہ شامل ہے ۔جولائی2013 میں فاٹا اصلاحات پر سیاسی جماعتوں کی جوائنٹ کمیٹی جس میں دس جماعتیں شامل تھیں اس نے گیارہ نکات پراتفاق کیا جس میں آرٹیکل247،لوکل باڈیز الیکشن ،ترقیاتی منصوبہ ،فاٹا میں انتظامیہ اور عدالتی اختیارات کی علیحدگی شامل تھی ۔2017 میں تقریبا سبھی جماعتیں اصلاحات کے حق میں تھیں۔مگرالیکشن قریب آتے ہی حالات نے پلٹاکھایاتوسیاسی جماعتو ں نے بھی اپنے مئوقف بدلااوراصلاحات کے بجائے فاٹاکوکے پی کے میں ضم کرنے کی تحریک شروع کردی پاکستان تحریک انصا ف،اے این پی ،جماعت اسلامی ،پاکستان پیپلزپارٹی اورچنددیگرجماعتیں کے پی کے کوفوری طورپرضم کرنے کامطالبہ کررہی ہیں جبکہ جمعیت علماء اسلام ف اورمحمود خان اچکزئی فوری طورپرانضمام کے قائل نہیں ہیں جوجماعتیں فوری طورپرفاٹاکے انضمام کامطالبہ کررہی ہیں وہ دراصل آئندہ الیکشن میں کے پی کے ووٹروں کوحمایت حاصل کرناچاہتی ہیں اورفاٹاکے مسئلے کوسیاسی نعرے کے طورپراستعمال کررہی ہیں ان میں سے بعض وہ جماعتیں بھی ہیں جن کوفاٹاکی تمام ایجنسیوں اورحدوداربعہ کابھی علم نہیں ہے ۔مختلف جماعتیں یہ باورکروارہی ہیں کہ فاٹاکے عوام ان کے پاس ہیں اس کے لیے وہ دوچارسوبندے اکٹھے کرکے دھرنے اوراحتجاج بھی کررہے ہیں مگرفاٹاکے پچاس لاکھ عوام ان مظاہروں اوردھرنوں سے عملی طورپرلاتعلق ہیں ۔
ایسے میںموجودہ وفاقی حکومت نے جوفاٹاکو قومی دھارے میںشامل کرنے کا وعدہ کیاتھاحکومت نے نومبر 2015 می ایک اعلی سطحی فاٹا ریفامرز کمیٹی قائم کی۔ کمیٹی نے اپنی سفارشات اگست 2016 میں پیش کیں۔ جس میں فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ لیکن کچھ قبائلی عمائدین ، جن کی اب بھی قبائلی علاقے کی معاشرتی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی حوالوں سے حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے، کی طرف سے شدید مخالفت سامنے آئی تھی ۔اوراس وقت بھی قبائلی عمائدین نے اپنی ایک سپریم کونسل قائم کی ہوئی ہے اورفیصلے کااختیاراس کودیاہواہے ۔

جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانافضل الرحمن نے اس بات کی درست نشاندہی کی ہے کہ فاٹامیں اس وقت تین طرح کے مئوقف پائے جاتے ہیںمگرچندسیاسی جماعتیں ایک مئوقف کولے کرقبائل کے عوام کااستحصال کررہی ہیں حالانکہ فاٹا میں عوام کی طرف سے اس وقت تین طرح کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے ساتھ ضم ہونا۔
فاٹا کو ایک الگ صوبے کی حیثیت دینا۔
موجودہ حیثیت کو قائم رکھتے ہوئے صرف آئینی اصلاحات کرنا۔

جو لوگ فاٹا کو خیبر پختونخوا کے ساتھ ضم کرنے کے حق میں ہیں ان کے کئی دلائل ہیں جس میں سرفہرست یہ کہ فاٹا کا سرکاری انتظامی ڈھانچہ پہلے ہی سے خیبرپختونخوا میں قائم ہے جن میں گورنر ہائوس ، فاٹا سیکریٹریٹ، مختلف ایجنسیوں کے متعلقہ پولیٹیکل ایجنٹس کے صدر دفاتر وغیرہ شامل ہیں۔

دوسرا یہ کہ قبائلیوں کی اکثریت پہلے ہی سے فاٹا سے منسلک خیبر پختونخوا کے بندوبستی اضلاع میں مقیم ہے ، قبائل سے مراعات لے رہے ہیں اور قبائلیوں کی یہ کثیر تعداد غیر ارادی طور پر خود کو فاٹا سے زیادہ خیبرپختونخوا کا حصہ سمجھتے ہیں۔

فاٹا کوخیبرپختونخوا میںضم کرکے قومی دھارے میںلانے کے بعدڈیورنڈلائن کامسئلہ بھی مستقل بنیادوںپرحل ہوجائیگااورپاکستان کی سرحدیں افغانستان کیساتھ جغرافیائی طورپر منسلک ہوجائیں گی.

فاٹا الگ صوبے بننے کی صورت میں اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ خود اپنا ریونیو جنریٹ کر سکے اور بجٹ بنا سکے۔ اپنے پائوں پہ کھڑا ہونے کے لئے اس کو کافی وقت لگے گا اور معاشی معاملات کے لئے پھر سے اسے وفاق پہ انحصار کرنا پڑے گا۔

اکثریتی قبائلی عمائدین جو کہ الگ صوبہ بنانے کے حق میں ہیں ان دلائل کو جوابی دلائل سے رد کرتے ہیں۔
الگ صوبہ بننے کی صورت میں فاٹا کے سینٹ میں ممبران سات سے بڑھ کر 23 ہو جائیں گے اور انضمام کی صورت میں یہی سات رہیں گے وہ بھی اکثریتی خیبر پختونخوا کی سیٹوں میں گم ہو جائیں گے۔کیونکہ سینٹ میں ہر صوبے کو برابر سیٹیں ملتی ہیں۔

الگ صوبے کی حیثیت سے فاٹا صوبہ کو NFC ایوارڈ سے تقریبا 120 ارب سالانہ ملیں گے انضمام کی صورت میں یہ رقم 70 ارب تک محدود ہو گی۔

الگ صوبے کی صورت میں فاٹا کے اندر بیشتر ملازمتیں مقامی لوگوں کو ملیں گی اپنا گورنر ہو گا اور وزیراعلی بھی۔ انضمام کی صورت میں غیر قبائلی علاقے کی تقدیر کا فیصلہ کریں گے۔ اس سے مزید محرومیاں پیدا ہوں گی۔

اب وہ لوگ جو سٹیٹسں کو قائم رکھنے کے حق میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ صرف آئینی اصلاحات اور علاقے کی ترقی پہ توجہ دی جائے اس مطالبے کی اکثریت روائتی قبائلی رسم و رواج پہ سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتی۔ ان کا یہ بھی اعتراض ہے کہ ہمیں اس عدالتی نظام میں جکڑا جا رہا ہے جہاں پر ایک عام مقدمے کو حل ہو نے میں دہائیاں لگتی ہے۔ جبکہ موجودہ جرگہ سسٹم سے بڑی بڑی لڑائیاں بھی مہینوں میں حل ہو جاتی ہیں۔پٹوار سسٹم کے ذریعے قبائلی علاقے میں زمین کی تقسیم اگر شروع ہوئی تو قبیلوں کے مابین شدید لڑائیوں کا خدشہ ہے۔

گزشتہ چندسالوں سے سیاسی رہنما، قبائلی مشران، علمائے کرام، سول سوسائٹی، طلبائ، ریٹارڈ سول اور عسکری سرکاری ملازمین وغیرہ تقریبا ہر آئینی، سیاسی اور صحافتی فورم پہ پرامن طریقے سے اپنی آواز پہنچانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ہمارے خیال میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل فاٹاکے عوام کواعتمادمیں لیناضروری ہے ان تمام مطالبات میں فوقیت اس کو ملنی چاہئے جس کی تائید اکثریتی قبائلی عوام کریں نہ کہ ماضی کی طرح اس پہ باہر سے کوئی مرضی مسلط کریں۔ موجودہ حالات میں قبائلی علاقے میں جن اقدامات کی اشد ضرورت ہے ان میں آئینی اصلاحات سمیت امن و امان کو برقرار رکھنا، معاشی استحکام لانا اور متاثرین کی بہترین آبادکاری کے لئے اقدامات کرنا ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے