کوئی ایسے ہی بابا نہیں بن جاتا۔ اصلی تے وڈے اورسُچے و سچے بابے جن ابدی اصولوں کو طے کر گئے ہیں اُن کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اصلی بابے، بابا بلھے شاہ نے ایسی ہی صورتحال کے لئے کہا تھا ’’اُلٹے ہور زمانے آئے‘‘یعنی الٹا زمانہ آ گیا ہے جو جس کا کام نہیں وہ اسے کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بابا بلھے شاہ اسی نظم میں کہتے ہیں کہ ’’کاں لگڑاں نوں مارن لگے، چڑیاں جرے ڈھائے‘‘ یعنی زمانہ اس قدر بدل گیا ہے کہ کوّا شہباز کو مارنے لگا ہے اور معصوم چڑیاں شاہین کو گرانے لگی ہیں۔ پھر کہتے ہیں گھوڑے کوڑے کے ڈھیر سے دانہ چگ رہے ہیں اور گدھوں کو سرسبز چراگاہیں میسر ہیں۔ پھر آج کے زمانے کے عین مطابق کہتے ہیں ’’سچے لوگوں کو دھکے دیئے جا رہے ہیں اور جھوٹوں کو عزت دی جا رہی ہے۔ ‘‘
ایسا لگتا ہے کہ بابا بلھے شاہ کو علم تھا کہ الٹے زمانے آئیں گے دنیا بھر میں جن کا کام خاموش رہنا ہے وہ بولنے لگیں گے اور دنیا بھر میں جن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بولیں انہیں کہا جا رہا ہے آپ گونگے بن جائیں آپ مت بولیں۔ دنیا بھر میں جج اپنے فیصلوں سے بولتے ہیں مگر الٹے ہور زمانے آئے کے مصداق یہاں تقریروں کے ذریعے بولتے ہیں۔ دنیا بھر کے دفاعی ادارے اپنے مشورے بند کمروں میں دیتے ہیں یہاں سرعام ملک چلانے کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ جنہوں نے زندگی میں ایک الیکشن نہیں لڑا وہ دوسروں کو سیاست کے طریقے اور اصول بتاتے ہیں اور جو اپنے خاندان تک کے مسائل حل نہیں کر پاتے وہ حکومت کو گورننس کے گُر سکھاتے ہیں واقعی ’’الٹے ہور زمانے آئے‘‘۔
زمانے والے تو بابا رحمت کی مثال دے کر کچھ کہنا چاہ رہے تھے مگر میں کیا کروں بابا رحمت تو میرے گھر میں رہتے تھے، میرے نانا چوہدری رحمت خان ایسے ہی انسان تھے جن کے انصاف کی مثال دی جاتی تھی اسی لئے میں نے اپنے بیٹے کا نام بھی ان کے نام نامی پر رحمت علی بخش (چوہدری علی بخش میرے دادا کا نام ہے اور رحمت خان چوہدری علی بخش کے سگے چھوٹے بھائی تھے) رکھا۔ اس نسبت سے یہ مثال دینے کا استحقاق صرف مجھے ہے اور میں یہ سرعام کہہ رہا ہوں کہ عدلیہ نے ’’بابا‘‘ نہیں ’’بابو‘‘ کا کردار نبھایا ہے بابا تو ہمارے سماجی ڈھانچے کا وہ کردار تھا جو حق سچ کے پیمانوں پر پورا اترتا تھا۔ اسی لئے بلھے شاہ اور فرید بابا کہلائے افسوس کہ آج تک کوئی منصف اس مقام تک نہیں پہنچا کہ بابا کہلائے۔ وہ زیادہ سے زیادہ نو آبادیاتی نظام کے بابو کے درجے پر فائز ہیں اور وہ بابو کہلانے کے مستحق بھی تب ہی ہیں جب حق اور انصاف کے مطابق فیصلے کریں۔ جسٹس منیر کا نظریۂ ضرورت کیا تھا؟ کیا یہ بابوں والا فیصلہ تھا یا بابوئوں والا؟ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے والا فیصلہ بابوں کا تھا یا بابائوں کا؟ اسمبلیاں توڑنے کو جائز قرار دینے کے فیصلے کیا بابوئوں والے نہیں تھے؟ تاریخ کے ترازو میں عدلیہ نے انصاف کے پلڑوں کو متوازن نہیں رکھا بلکہ ان بابائوں کا جھکائو ہمیشہ طاقتوروں کی طرف رہا۔ عوام کے حق میں اگر فیصلے ہوئے بھی ہیں تو بہت کم۔
بات بابوں پر ہی آ گئی ہے تو پھر دیکھنا پڑے گا بابا کسے کہتے ہیں۔ بابا وہ ہوتا ہے جو سب سے پہلے اپنا احتساب کرتا ہے، کم کھاتا ہے، کم سوتا ہے، تکبر سے کوسوں دور، مٹا ہوا انسان ہوتا ہے۔ دنیا کے عیش آرام اور دولت کو تج دیتا ہے، مخلوق خدا سے پیار کرتا ہے۔ شاہ حسین کی طرح، بلھے شاہ کی طرح مظلوم سماج کی طرفداری کرتے ہوئے طاقتوروں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔ ہمارا انصاف بابو تو اپنا احتساب ہونے ہی نہیں دیتا۔ سیاستدان خراب، میڈیا برا، نوکر شاہی غلط، اسٹیبلشمنٹ بھی موردِ الزام، آ جا کے انصاف بابو ہی پاک دامن ہے۔ آئین کے آرٹیکل 209کے تحت افتخار چوہدری کا احتساب کرنے کی کوشش کی گئی تو جسٹس خلیل رمدے کی سربراہی میں فل بنچ نے کہا کہ اس آرٹیکل کے ذریعے چیف جسٹس کا احتساب نہیں ہو سکتا۔ وہ دن اور آج کا دن انصاف بابو نے سب کو آگے لگایا ہوا ہے مگر اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کو تیار نہیں۔ بابا بننا ہے تو سب سے پہلے اپنا احتساب کریں۔ لاکھوں لوگوں کے ووٹ لینے والے سیاستدانوں کا احتساب ہو سکتا ہے تو انصاف بابوکا کیوں نہیں؟
انصاف بابو نہ کسی کے دبائو میں ہے نہ کسی میں اس پر دبائو ڈالنے کی جرات ہے ۔وہ کسی سے ڈرتا ہے نہ کسی میں اسے ڈرانے کی ہمت ہے۔ نہ ہی وہ کسی سے ڈرتا ہے اور نہ کسی کو اسے ڈرانے کی ہمت ہے۔ واقعی ہر پیشے کی کچھ خصوصیات اور کچھ خامیاں ہوتی ہیں انگریزی کے پہلے باقاعدہ شاعر جیفری چوسر (Chaucer) نے کنٹربری کہانیاں (Canterbury Tales) لکھیں تو اس کے چالیس کردار جو سماج کے مختلف پیشوں سے تعلق رکھتے تھے ان کی خوبیاں اور خامیاں اس انداز میں بیان کیں کہ کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی چوسر کے کردار پرانے نہیں ہوئے۔ چوسر کا مشاہدہ اتنا گہرا تھا کہ وہ ہر پیشے کے کرداروں کو زندہ جاوید کر گیا۔ چوسر زندہ ہوتا تو پاکستان میں مختلف پیشوں کے کرداروں کا مشاہدہ کر کے یہ کہتا کہ پاکستان کا صحافی بابو آزادی پسند ہے مگر اسے دوسروں کا احترام کرنا نہیں آتا۔ ہر ایک کی بے عزتی کر کے خوش ہوتا ہے۔ چوسر یہ بھی لکھتا کہ یہاں کا سیاسی بابو اقتدار پسند ہے اور اپنے مقصد کے حصول کیلئے جھوٹے الزام بھی لگا دیتا ہے۔ افسر بابو کے کردار میں یہ ضرور لکھا جاتا کہ وہ مراعات پسند ہے اسے صرف اچھا عہدہ اور مراعات چاہئے ہوتی ہیں اس کا کوئی نظریہ یا ضمیر نہیں جو حکومت آ جائے وہ اس کا نظریہ ہوتی ہے۔ چوسر آزاد معاشرے میں ہوتا تو انصاف بابو کا تفصیل سے جائزہ لیتا اور کہتا کہ انصاف بابو میں تکبر بہت ہے۔ عدالت میں وکلاء اسے مائی لارڈ کہتے ہیں عدالت میں سکوتِ مرگ کی سی خاموشی ہوتی ہے، دونوں طرف کے وکلاء انصاف بابو کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں ایسے میں انصاف بابو میں اپنے برتر ہونے کا خیال کیسے نہ پیدا ہو۔ کوئی سوال کرے تو توہین عدالت، کوئی فیصلے پر تنقید کرے تو اداروں پر تنقید۔ کوئی انصاف بابو کے تضاد کی نشاندہی کر ے تو انصاف کا خون۔ چوسر شاید اور بھی بہت کچھ لکھتا مگر آخر میں یہ ضرور کہتا انصاف بابو نے اگر بابا بننا ہے تو اپنا کردار بھی بابو جیسا بنائے، خود احتسابی اور تکبر سے پرہیز کو اپنائے۔ چوسر یہ بھی لکھتا کہ انسانی شعور اور ریاستی دساتیر نے عدالت کو چار دیواریوں میں پابند رکھا ہے۔ پورے معاشرے کو عدالت بنانے سے انصاف نہیں انارکی پیدا ہوتی ہے عدالت صرف چار دیواری تک محدود ہوتی ہے اور جج صرف عدالت کے اندر کا منصف۔ پورا معاشرہ چلانا اس کے فرائض میں ہرگز شامل نہیں۔