اقوام متحدہ کا مستقبل اور  امریکی اجارہ داری

 

 

ڈولنڈ ٹرمپ کے کچھ روز قبل سرکاری بیان کے ردعمل میں پاکستان سمیت بین القوامی برادری سراپا احتجاج ہے ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کر لیا ہے اور امریکن ایمبیسی کو بیت المقدس میں شفٹ کرنے کا ارادہ بھی کر لیا ہے میں نے اپنی گزشتہ تحریر میں تاریخ سے کچھ حوالے دیے تھے کہ دنیا میں کوئ بھی مذہب ہو وہ ظالم کا حمایتی نہیں اور کوئ بھی شخص خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو اور اس پر ظلم ہو رہا ہو تو اس کی حمایت کے لئے آواز بلند کی جا سکتی ہے اسی تناظر  میں دو روز قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے امریکہ فیصلے کو 128 ووٹوں سے مسترد کر دیا

ڈولنڈ ٹرمپ کے فیصلے کو دنیا میں موجود دیگر ممالک کیسے دیکھ رہے ہیں اس کی بہترین مثال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں دیکھنے کو ملی 128 ممالک نے مکمل طور پر ٹرمپ کے فیصلے کا انکار کیا اور اس کے خلاف قرارداد بھاری اکثریت سے پاس کی جبکہ 9 ممالک جن میں چھوٹے جزائر اور غیر معروف ممالک شامل ہیں’ان سب نے امریکی صدر کے فیصلے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 35 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا قرارداد کے حق میں نہ ووٹ دینے والے ممالک کے نام یہ ہیں ٹوگو’ پلاؤ’ مارشل آ ئ لینڈ’میکرونیشیا’ہنڈراس’سولومن آ ئ لینڈ’ وینا ٹو اور گوئٹے مالا شامل ہیں امریکی صدر کے فیصلے کے خلاف یمن اور ترکی نے مشترکہ طور پر قرارداد پیش کی تھی پاکستان نے بھی اس کی حمایت کی بین القوامی ممالک کی حکومتوں کا یہ فیصلہ امریکی حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے اس قرارداد کے سامنے آنے سے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ امریکی صدر یروشلم کے حوالے سے کئے گئے اپنے فیصلے کو واپس لیں’ امریکی حکومت اور انتظامیہ کا وہ خواب چکنا چور ہو گیا ہے جس میں وہ بین القوامی برادری کو اقوام متحدہ کے فورم سے اپنے حق میں استعمال کرتا رہا ہے اور امن کا درس دیتا رہا  128 ممالک نے بلاواسطہ امریکی صدر اور اسرائیل کے اس گٹھ جوڑ کی نفی کی ہے جس کی بنیاد ظالم پر مبنی ہےیہ بات ذہن میں رہنی چاہئیے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی وہ واحد فورم ہے جس کے ممبران ممالک کو ایک جیسی نمائندگی حاصل ہے کسی کو ویٹو کا اختیار نہیں دوسری طرف امریکی صدر نے اپنے ملک کے خلاف آنے والی قرارداد سے قبل کئی ممالک کو دھمکیاں بھی دیں جس میں پاکستان بھی شامل ہے کہ مالی لین دین بند کر دیا جائے گا ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ مخالفت میں قرار داد آنے کی پرواہ نہیں کیوں کے یہ ممالک امریکہ سے اربوں ڈالر لیتے ہیں  اس سے پہلے اپنی عزت بے عزتی کا مسلہ بنا  کر مصر کی طرف سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کر دیا تھا اب  ساتھ ہی ساتھ اسرائیل نے اس جنرل اسمبلی قرارداد کو مسترد کیا ہے اور امریکی صدر کے فیصلے کی حمایت کی ہے کہ ان کے حق میں ٹرمپ کا یہ فیصلہ درست ہے ڈولنڈ ٹرمپ کے پاس ان کے زاویے کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینا اصل میں اس لابی کے موقف کو طول دینا ہے جو دنیا میں سرمائے کی بنیاد پر ممالک میں اپنی من پسند حکومتیں بنواتی اور گراتی ہے جس کی ضروت امریکی صدر کو ہی نہیں بلکہ امریکی حکومت کی ضرورت ہے اس کے برعکس مسلم ممالک میں یہ تاثر پھیلتا چلا جا رہا ہے کہ امریکی صدر کا اقدام صرف و صرف مسلمانوں اور یہودیوں کی ایک جنگ ہے جس کو ٹرمپ ہوا دے رہیں ہیں جبکہ امریکی صدر کو مقبوضہ بیت المقدس کا معاملہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں حل کرانا چاہئیے عالمی حالات میں امریکہ کی حکومت ظلم کی بنیاد پر زیادہ دیر تک چلتی ہوئے نظر نہیں آ رہی پہلی جنگ عظیم کے بعد ‘لیگ آف نیشنز’ کا قیام جنگ کو رکوانے اور ممالک میں امن پیدا کرنے کے لئے عمل میں آیا تھا امریکہ نے اس وقت بھی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا جیسا آج قرارداد کو نا مان کر رہا ہے لیگ آف نیشنز کی بنیاد ختم ہو گئ جب اس کے مقاصد پورے نہ ہوئے اسی طرح آج بھی دنیا میں امن کے نام پر بننے والی اقوام متحدہ جس میں امریکہ بھی شامل ہے کو خطرات لاحق نظر آ تے ہیں کیوں کہ صرف فلسطین کا معاملہ ہی نہیں بلکہ دنیا میں موجود کوئی بھی مسلہ ہوں سماجی ہو یا معاشرتی’ ثقافتی ہو سیاسی کوئ ایک معاملہ ایسا نہیں جس میں ظالم امریکی حکومت کی اجارہ داری قائم نہ ہو اور ظلم کم ہوتا دکھائی دے رہا ہو اگر امریکہ کا یہ طرز سیاست رہا تو اقوام متحدہ کی بنیاد بھی ختم ہو سکتی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے کہ ظالمانہ سوچ کی حامی امریکی انتظامیہ کتنی دیر اور کس قدر زور کے ذریعے اقوام متحدہ کو یرغمال بنا کے رکھ  سکتی ہے؟

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ظالم اور مظلوم کی پہچان کی جائے چاہے فرد ہو یا حکومت اس بنیاد پر اس حقیقت کو پرکھا جائے کہ امریکی حالیہ فیصلے کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں موجود ممالک نے حقیقت میں فلسطینیوں کو مظلوم تسلیم کر لیا ہے اس قرارداد کے آنے کے بعد اس کا جواب ‘ہاں’ میں ہے اگر ظلم کی بنیاد پر امریکہ کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے نفرت کا اظہار کیا ہے تو اقوام متحدہ متحدہ میں سے امریکہ کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کے لئے بہترین حکمت عملی وضع کی جائے اس میں پاکستان کا کردار اہم ہو سکتا ہے امن کا قیام اس وقت ممکن ہو سکے گا جب دنیا اس بات کو تسلیم کر لے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کے تناظر میں’ کہ بد امنی پیدا کرنے میں امریکہ سر فہرست ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے