حاکم بدلتے ہیں یہاں زنجیرنہیں

دسمبر 2012 کو سندھ کے جتوی خاندان کے چشم و چراغ شاہ رخ جتوی نے اپنے دوستوں کے ہمراہ ایک ڈی ایس کے لڑکے شاہزیب خان کو قتل کر دیا . معاملہ میڈیا کے ہاتھ لگا اور اس کو پھر سوشل میڈیا نے اپنے ہاتھ میں لیکر پوری قوم کے خوابدیدہ ضمیر کو جنجوڑا اور ضرب کچھ اتنی پر ذور تھی کہ بابا رحمتے کی عدالت کو بھی اپنا سوابدیدی نوٹس لینا پڑا .

ملزم بھاگا ملک سے بائر نکلا مگر بلااخر پکڑ کر حوالہ زندان کیا گیا .

کیس چل پڑا میڈیا اپنے سیٹھ کا اور اپنے ٹونٹی فور-سیون ٹی وی کا شکم بھرنے کے لیے کہیں اور مصروف ہو گیا رہ گے قاتل اور مقتول کے لواحقین .
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگرچہ مقتول خاندان کوئ غریب یا بے بس خاندان نہیں تھا مقتول کا والد پولیس میں ڈی ایس پی کے عہدے پر تھا اور کون نہیں جانتا کہ ملک عزیز میں پولیس کا ایک سپای ہی بڑی توپ چیز ہوتا ہے چہ جاہکہ ایک ڈی ایس پی . مگر یہاں معاملہ اتنا بھی سیدھا نہیں تھا کیونکہ دوسری جانب مبینہ قاتل کا خاندان سندھ کا با اثر جتوی خاندان تھا تو یہاں ہہنچ کر معاملہ ان بیلنس ہو گیا .

پانچ سالوں میں کیا کیا نشیب وفراز آے ہوں گے اندازہ لگانا مشکل نہیں . دھونس دھمکی ,پیسہ اثر و رسوخ ہر چیز کا استمال کیا گیا ہو گا جس کا نتیجہ آج اس مبینہ قاتل کی رہای پر ختم ہوا اور وہ وکٹری کا نشان بناتا ہوا ہسپتال سے بائر نکلا جو اس سڑے ہوے تفنن زدہ معاشرے کی کچلی ہوی لاش پر رقص کے مترادف تھا.

کیس پانچ سال چلا اور وطن عزیز کی شاندار روایت کے عین مطابق کے جس کی روح سے ہر کرپٹ ,غنڈہ ,بااثر قاتل یا پھر سیاست دان یا پھر فوجی جرنیل کی طرح جیل جاتے ہی کسی شدید ان جانی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے ٹھیک اسی طرح شاہ رخ جتوی بھی بیمار ہو کر کراچی کے جناح ہسپتال کی سپیشل وی آی پی وارڈ میں منتقل ہو گیا.

اور کون جانے کہ وہ راتیں اپنے گھر کے گرم بستر پر بسر کرتا تھا کہ اس وارڈ میں ?
کہ یہاں سب ممکن ہے .

اسی ہسپتال کی سپیشل وارڈ سے مجرم فل طمتراق سے رہا ہو گیا اور ایسا ویسا نہیں گاڑیوں کا ایک بڑا جلوس آیا اسےہسپتال سے لینے اور وہ بھی نکلا تو فتح کا نشان بناتے ہوے .

جو نظام ایک قاتل کو تختہ دار نہیں دے سکتا پتا نہیں اس نظام میں ہم کونسی امید کا چراغ روشن کر کے بیٹھے ہیں کہ جس کی روشنی میں ہم سمجتے ہیں ہر ہاتھ کی رسائ انصاف کے دروازے تک ہو گی کوی ماں اور کوی باپ اس ڈر سے قاتل کا گریبان نہیں چھوڑیں گے کہ ان کی اور بھی اولاد ہے ان کے گھر میں جوان بیٹیاں ہیں .

زیر بحث معاملہ میں 5سالہ کیس مقتول کے والد کی طرف سے کورٹ میں جمع کراے گے معافی نامے پر ختم ہوا جس میں کہا گیا کہ میں قاتل کو اور اس کے ساتھیوں کو اللہ کی رضا پر معاف کرتا ہوں اور اس کے فوری بعد قاتل جو کہ ہسپتال میں مقید تھا کو رہا کروانے کے لیے اس کے لواحقین جاہ و حشمت کے ساتھ بنا نمبر پلیٹ لینڈ کروزرز میں پہنچا اور ایک فاتح کی ماند ہیرو کو لیکر نکلا اور یہ جلوس ایک گالی کی صورت میںایک نشان اس معاشرے کے بوسیدہ نظام کے ماتھے پر ثبت کر گیا.

کونسے جیل کے ڈاکٹرز تھے کہ جنہوں نے قاتل میں ان جانی بیماریاں ڈال کر ہسپتال بیجھا اور پھر اس ہسپتال کے کونسے ڈاکٹرز تھے جنھوں نے اس مجرم کا شاندار استقبال کیا اور پانچ سال اپنا سپیشل مہمان بنا کر رکھا?

دوسرا اہم سوال یہ کہ ہم اپنی مرضی,حوس اور نفسی کمزوریوں کو مذہب کا تڑکا کب تک لگاتے رہیں گے?
یہاں یہ بتاتا چلوں پاکستان میں ہر سال کورٹ کی طرف سے دیت کی رقم مقرر کی جاتی ہے جو کہ اس دفعہ قتل امد(جان بوجھ کر گیا جانے والا قتل, قتل خطا جو قتل کے ارادے سے نہ ہو مگر بندہ مارا جاے) کی 16 لاکھ مقرر ہے اور قانون کے مطابق دیت یہنی خون بہا سولہ لاکھ سے زیادہ ادا نہیں کیا جاسکتا اور جب قانون کے مطابق خون بہا لیا جاے گا تو وہ ظائر ہے کورٹ کٹوتیوں کے بعد اور تمام وارثین میں تقسیم ہو گا تو اس وجہ سے معاملہ کورٹ سے بائر ہی طے کر لیا جاتا ہے اور عدالت میں اللہ کی رضا سے کام لیا جاتا ہے .

مزکورہ بالا کیس میں بھی سننے میں آ رہا ہے کے ورثا کو 16 کروڑ اور اسٹریلیہ میں فلیٹ دیا گیا تب جا کر اللہ کی رضا جا کر شامل کی گی ہے .

یہ تو رب ہی جانتا ہے کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے میں پانچ سال کا عرصہ کیوں لگا اور کونسی چیز مانع تھی جو اس رضا میں رکاوٹ تھی جو پانچ سال بعد دور ہونے کے بعد ملزم کی رہای پر ختم ہوی.

خیر یہ معاملہ تو رب اور قاتل اور مقتول کے لواحقین ہی بہتر جانتے کہ رضا سولہ کروڑ کا نتیجہ تھی یا پھر واقعہ کایا پلٹ ہوی ہے .

مگر اس سب کے باوجود ریاست جس کو ماں سمجا جاتا ہے کہیں نظر نہیں اتی .

قتل امد , قتل خطا کے قوانین پر نظر ثانی کیساتھ ساتھ گواہان اور متاثرین کو تحفظ جیسے معمالات کو بہتر بنانا تا کہ وہ اپنے عمل میں آزاد ہوں اور انصاف کے تقاضوں کو احسن طریقے سے پورا کیا جا سکے بغیر کسی خوف خطر کے.

مگر افسوس ایسا ہے نہیں جس معاشرے میں ایک عام انسان کو ایک روٹی اور چھت کے لیے ایک آگ کا دریا عبور کرنا ہو اور اپنی اور اپنے بچوں کی ذندگیوں کے سفر کو جاری رکھنے کے لیے روز پل صراط سے گزرنا ہوتا ہو وہاں ایسی باتیں کتابی تو ہو سکتی ہیں عملی نہیں.

یہاں مجھے لگتا ہے شاہ زیب کے لواحقین نے پانچ سال بعد ہی سہی مگر ایک حقیت برمبنی فیصلہ کیا ہے کہ جس سے گھر میں بیٹھی بیٹی کی چادر بھی سلامت رہ گی اور دی گی رقم جو کہ اگر دی گی ہے تو اس سے اپنے باقی دن بہتر طریقے سے ملک سے باہر سکون سے گزارے جاسکتے ہیں جہاں کوہی جتوہی , کوہی ملک , کوی ذرداری یا پھر کوی میاں نہیں ہو گا .

کیونکہ یہ ملک کبھی بھی ہمارا نہیں تھا یہاں رہنا کے لیا میاں ذرداری ,ڈاکٹر عاصم , آیان علی, عزیر بلوچ شرجیل میمن حاجیوں کے لٹیرے سعید کاظمی فوجی جرنیل , گڈ طالبان بیڈ طالبان یا پھر کسی پریشر گروپ اور یا پھر ملا ازم کا حصہ ہونا ضروری ہے.

اور اگر پھر بھی رہنا ہے تو کیڑے مکوڑے تو کسی بھی جگہ رہ سکتے ہیں مگر پاوں کے نیچے آکر کچلنے کے لیے .

اے چاند یہاں نہ نکلا کر, بے نام سے سپنے دیکھا کر
یہاں الٹی گنگا بہتی ہے,اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں ,نہ لوگوں کے وہ خادم ہیں
ہے یہاں پر کاروبار بہت , اس دیس میں گردے بکتے ہیں
کچھ لوگ ہیں عالی شان بہت , اور کچھ کا مقصد روٹی ہے
وہ کہتے ہیں سب اچھا ہے, یہ دیس اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر…
پتا نہیں ہم.کب تک جالب کو یاد کرتے رہیں گے کیونکہ بہت سال پہلے بھی جالب رویا تھا اور وہ آنسوں آج بھی رواں دواں ہیں کیا کرہیں جب حاکم بدلنے پے غلام خوشی مناہیں جب کہ پابہ زنجیر تب بھی تھے اب بھی ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے