گزرے سال میں پاکستان میں وہ بہت کچھ ہوا جو عشروں سے ان ہونی سمجھا جاتا رہا۔ اولین، پانامہ لیکس نے وزارت عظمیٰ اور کابینہ کی سطح پر احتساب کو یوں ممکن بنادیا کہ پورا حکمران خاندان ہی احتساب کی زد میں آ گیا ۔ یہاں تک کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ نواز شریف جو روایتی طرز کے عام انتخابات میں منتخب ہو کر تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے،ایک ایسے عدالتی احتسابی عمل بمطابق آئین و قانون سے گزر کر وزارت عظمیٰ گنوا بیٹھے، جس کی ضرورت تو عرصے سے مملکت میں شدت سے محسوس کی جا رہی تھی،لیکن یہ ممکن ہونا محال لگتا تھا بلکہ ناممکن،2017 میں اسٹیٹس کو میں اعلیٰ ترین حکام کا ایسے مطلوبہ احتساب کا ’’ممکن ہونا یا نا ممکن ہونا‘‘ پانامہ لیکس میں حکمران خاندان کی بے نقابی کے تناظر میں ایک قومی بحث کی صورت اختیار کر گیا۔ ملکی رائے عامہ، دو بڑی آرا پر مشتمل رہی کہ پانامہ لیکس کے انکشافات کے نتیجے اور اس پر اپوزیشن جماعتوں خصوصاً عمران خان اور ان کی جماعت کے حکمران خاندان کو قانون کے مطابق احتسابی عمل میں لانے پر ڈٹ جانے نے قوم کے ایک بڑے حصے میں یہ یقین پیدا کر دیا کہ پانامہ لیکس سے حکمرانوں کے خلاف ہونے والے منی لانڈرنگ کے سکہ بند انکشافات کے بعد اور اس کے پیچھے ن لیگ کے سیاسی مخالفین کی پانامہ لیکس کے انکشافات کو احتسابی عمل میں تبدیل کرنے میں دلجمعی کے بعد ممکن نہیں رہا کہ بڑے بڑے ماضی کے اسکینڈلز کی طرح یہ (پانامہ اسکینڈل) بھی دب جاتا۔ خصوصاً جبکہ خود صدر مملکت جناب ممنون حسین اور عوام الناس کی سطح پر ایک بڑی رائے یہ بن کر سامنے آئی کہ یہ (پانامہ لیکس) داخلی سیاسی و ملکی حالات حاضرہ سے یکسر بالا حکمرانوں کے مخالف منجانب قدرت اب بڑی بلا کی آمد ہے ۔ تاہم خود حکمران اور ان کے پرزور حامیوں اور مختلف شکلوں میں ان کے بینی فشریز کا ابتداء میں تو یہ یقین پختہ رہا کہ ماضی کے اسکینڈلزاور حکمرانوں پر لگے الزامات یا اس کے خلاف احتجاج کی طرح پانامہ لیکس بھی اپنی موت آپ مر جائے گا ۔ اس میں اسٹیٹس کوکو سخت مایوسی اور اس کے اقتدار کو لازوال سمجھنے والے مایوس لوگ اور رائے ساز بھی شامل تھے۔ تاہم ن لیگ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ گزرے سال، 17میں پاکستان کے قومی اداروں کی بربادی کا ماتم ، ان کے زوال پذیر ہونے کا تجزیہ اور خلاف آئین و قانون بیڈ گورننس کی نشاندہی میڈیا کے اپنے پیشہ وارانہ ایجنڈے میں غیر معمولی جگہ بنا گئی، یوں میڈیا کے مانیٹرنگ کے کردار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
گزرے سال میں عدلیہ کا کردار بھی فقط سرگرمی اور احتسابی عمل کے حوالے سے قومی ضرورتوں سے ہی ہم آہنگ نہ تھا بلکہ پانامہ لیکس کے تناظر میں حکمران خاندان کے احتساب کا جو عمل شروع ہوا، سپریم کورٹ نے اس میں نیب کی نیم مردہ کیفیت کو ختم کر کے اس میں بمطابق آئین و قانون و قومی ضرورت اور اس (نیب) کے قیام کے مقاصد کے مطابق نئی روح پھونک دی۔ جیسا کہ نیب کے احتسابی عمل کی زد میں آئے حکمران خاندان کے خلاف ریفرنس کی سماعت کی سپریم کورٹ کے جج سے مانیٹرنگ کا فیصلہ، اس سے قبل جے آئی ٹی کا قیام بھی عدلیہ کا وہ اہتمام تھا جس نے عوام میں شروع ہونے والے احتسابی عمل پر اعتماد کو تو بڑھا دیا۔ تاہم اس کے مقابل خود شریف خاندان خصوصاًوزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم صفدر اور پانچ وزراء نے اپنے سیاسی ابلاغ میں معمولی احتیاط کے ساتھ عدلیہ کو یکطرفہ اور متنازعہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ خصوصاً سپریم کورٹ کے جناب نواز شریف کو نا اہل قرار دینے کے فیصلے کے بعد تو ن لیگ کے وفاقی وزراء نے عدلیہ پر شدت سے بلواسطہ تنقید کر کے اس کے کردار کو عوام کی نظر میں مشکوک و متنازع بنانے میں اپنے حلفی ذمے داریاں کے برعکس پورا زور لگایا ۔ اس میں ن لیگ موقع با موقع فوج کو رگیدنے کی کوشش بھی کرتی رہی، جس سے یہ تاثر عام ہوا کہ پاکستان کے اہم ترین اداروں میں تنائو کی کیفیت پیدا ہو کر بڑھتی جا رہی ہے ۔دوست ملکوں کے سفارتخانوں ، عالمی میڈیا اور سرمایہ کاروں نے بھی اس صورتحال کی مانیٹرنگ پر بہت توجہ دی، جس سے سیاسی عدم استحکام بڑھتا گیا۔ اور ملک میں خلاف آئین ٹیکنو کریٹس کی طویل المیعاد قومی حکومت یا عبوری حکومت بننے کی خبریں اور افواہیں عام ہونے لگیں۔
آنے کے بعد عدلیہ اور فوج پر قدرے محتاط تنقید اور تبصرے کا جورویہ اختیار کیا، خود مسلم لیگ کے ایک بڑے دھڑے اور شریف خاندان میں بھی اس کی شدید مخالفت ہوئی۔ شہباز، نثار کیمپ کی ن لیگی قیادت سے مختلف اپروچ نے ن لیگ اور شریف خاندان میں جو دراڑ ڈالی اس نے اسٹیٹس کو کوجناب نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کھونے کے بعد بڑا دھچکا دیا، جس سے اس کا روایتی استحکام ہل کر رہ گیا ہے۔ اگرچہ سابق وزیر اعظم کی مکمل سرپرستی سے اپنی صاحبزادی محترمہ مریم صفدر کو مستقبل قریب میں اپنے جانشین کے طور لانے اور قومی سیاست میں اتارنے سے ملک میں ملوکیت کے جگہ بنانے کا سوال اٹھا جس سے وہ میدان سیاست میں اترتے ہی متنازعہ ہو گئیں، لیکن وہ اس سے بھی قبل ڈان لیکس کے حوالہ سے جتنا زیر بحث رہیں اور اس کا جو نتیجہ نکلا، وہ محترمہ کی پہلی سیاسی ٹاسک کا ڈیزاسٹر سمجھا گیا، تاہم حلقہ 120 کی انتخابی مہم چلانے سے انہیں بڑا پبلک ایکسپوثر ملا۔ اقتدار کے آخری سال میں امید تھی کہ ن لیگ کچھ اصلاحات خصوصاً انتخابی اور دوسری عوام دوست قانون سازی سے اپنا امیج بحال کر کے ساکھ بحال کرے گی، لیکن حالات کے شدید دبائو اور وزارت عظمیٰ میں تشویشناک تبدیلی نے ن لیگ پر اس قدر بوکھلاہٹ طاری کی کہ اس میں ایک تو جناب نواز شریف کی ن لیگی قیادت کو بحال کرنے کی خلاف جمہوری قانون سازی قومی سطح پر ہضم نہ ہوئی اوپر سے عقیدہ ختم نبوتؐ جیسے حساس ترین آئینی مندرجات میں تبدیلی کی جسارت نے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے مجموعی کردار اور اس کی نا اہل کردار کو زمین سے لگادیا۔ جس کی سزا ابھی ن لیگ نے انتخابات میں بھگتنی ہے۔
حدیبیہ اور ماڈل ٹائون کیس سارا سال ن لیگ پر شدید دبائو کی صورت میں اسے ہراساں کرتے رہے ، تاہم حدیبیہ کیس پر اسے عدالتی فیصلے سے بڑا ریلیف ملا۔
2017ء کے اس پس منظر کو لئے نئے سال کا جو سورج آج طلوع ہوا ہے، اس کی روشنی میں واضح طور پر قرائن کو پڑھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی قومی سیاست میں حکمرانوں کے جاری احتسابی عمل کو رکوانے اور اس کو منطقی نتائج تک پہنچانے کے لئے ن لیگ اور اپوزیشن میں زبردست کشمکش جاری رہے گی۔ پاکستان میں 18کے سال کا امکانی سفر اپنے ساتھ حکومتی مدت پوری ہونے ،عام انتخابات بروقت ہونے، انتخابی اصلاحات ہونے یا روایتی انتخابات ہی ہونے ، ن لیگ کے متحد رہنے اور سب سے بڑھ کر آنے والے منتخب اداروں کو بمطابق آئین تشکیل دینے کے ان کی کارکردگی قومی و عوامی ضرورتوں کو پورا کر سکے اور سب سے بڑھ کر تیزی سے بگڑتی قومی معیشت کو سنبھالا دینے کے چیلنج سمیٹتے ہوئے ہے۔ پوری قوم کے لئے نیا سال شروع ہونے سے پہلے حوصلہ افزایہ ہوا کہ عدلیہ ، فوج اور میڈیا کی اپروچ اور عملاً کردار بمطابق آئین و قانون اور جمہوری جذبے کے ساتھ اطمینان بخش حد تک اسٹریم لائن ہوا ہے۔