تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں

عالمی حالات حاضرہ کا تقا ضا ہے کہ پاکستان کو اپنی درست سمت کا تعین کرتے ہوئے ایک مضبوط ’’علم پر مبنی معیشت‘‘قائم کرنے کی فوری ضرورت ہے ۔ وہ ممالک جو سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی میں سرمایہ کاری نہیں کر رہے ہیں وہ پیچھے رہ گئے ہیں ۔ علمی معیشت کے حامل اور غیر حامل ممالک کے درمیا ن بڑی تیزی سے خلیج میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اضافہ اسقدر ہو گیا ہے کہ عالم اسلام سائنس اور ٹیکنالوجی میں مغرب سے تقریباً200 سال پیچھے رہ گیا ہے ۔ اس کا اندازہ نوبل انعام یافتگان کی تعداد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے یعنی جامعہ ہارورڈ سے 151، کولمبیا سے 101، کیمبرج سے 94 اور شکاگوسے 89 پروفیسروں کو نوبل انعام دئیے جا چکے ہیں۔ ا س کے مقابلے میں اسلامی ملک کے کسی بھی سائنس دان کو آج تک کسی بھی اسلامی ملک میں تحقیق کے صلے میں ایک بھی نوبل انعام نہیں ملا ہے۔ اسی طرح لندن کی قابل فخر رائل سوسائٹی(قائم کردہ 1660ء) کے آٹھ ہزار سائنسدانوں میں سے صرف 4 اسلامی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ اوردلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے دو(مرحوم پروفیسر سلیم الزمان صدیقی اور مصنف) کا تعلق پاکستان کے اس مایہ نازتحقیقی ادارے ، بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی اور حیاتیاتی علوم جامعہ کراچی سے ہے ۔ تاہم ہم ایک علم پر مبنی معیشت میں اسوقت تک منتقل نہیں ہو سکتے جب تک کہ پُر بصیرت اور دیانت دار حکمرانوں و ماہرین کی قیادت نہ حاصل ہو۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین معاشی دور سے گزر رہا ہے، ملک قرضوں میں بری طرح ڈوب گیا ہے اور تیزی سے تنزلی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس صورتحال میں یہ سونے پر سہاگہ کہ غیر ملکی مالیاتی ادارے ہمارے دشمن اقوام کےبھڑکانےپرخوشی خوشی ہمیں زیادہ سے زیادہ قرض دینے کے لئےتیاربیٹھے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ کب قوم اجتماعی خودکشی کرے اور وہ پھراس ملک پر قابض ہوں۔ 2004 ء کی تیسری سہ ماہی میں پاکستان کا کل بیرونی قرض33،172 ارب امریکی ڈالر تھا جو کہ پاکستان کے وجود کے 57 سال میں جمع ہوا تھا ۔ ا س کے بعد غیر ملکی اداروں کے دباؤ کے نتیجے میں بدعنوان حکومتیں اقتدار میں آئیں۔ ہمارے حکمرانوں نےغیر ملکی مالی اداروں کی حمایت کے ساتھ بدعنوانی کی۔ حتیٰ کہ 2017 کی دوسری سہ ماہی میں ملک کا کل بیرونی قرضہ بڑھ 33 ارب ڈالر سے 250 فیصد بڑھ کر 83 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ گیا ۔ اگر یہ رقم زراعت، بڑے ڈیموں، اعلی تعلیمی اداروں یا صحت جیسے پیداواری منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لئے استعمال کی جا تی تو اس طرح ایک بھاری قرض قابل فہم ہو تا ۔ مگر صد افسوس ایسا نہ کیا گیا بلکہ یہ ادھار رقم ذیادہ تر ضائع کر دی گئی ہے۔اس کے علاوہ 18 ویں ترمیم نے بھی صوبوں کو فنڈز منتقل کرکے تباہی میں مزید اضافہ کیا۔کم از کم سندھ میں تو یہ تقریباً سارا بجٹ بدعنوانی کی نظر ہو گیا ،اندرون سندھ تو مکمل طور پر تباہ حال ہے ۔

اس صورتحال کو قابو کرنے کے لئے ایسے بدعنوان حکمرانوں کوفوجی عدالتوں کے ذریعے سزائے موت دینے کی ضرورت ہے کیونکہ عام عدالتی نظام اس باب میں مکمل طور پر ناکام ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ بدعنوانوں کے سہولت کاروں مثلاً نیب، ایف آئی اے، پولیس، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک ، اوراسی طرح کے دیگر اداروں کے سینئر عہدیداروں کے لئے بھی سخت سزائیں لاگو کرنی چاہئیں۔ بڑے پیمانے پر زمینی قبضے کے فراڈ، خاص طور پر سندھ میں عوام کے علم میں ہیں، صرف سپریم کورٹ ہی ان طاقتور بدعنوانوںں کو موجودہ سیاسی نظام کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کا کام کر سکتی ہے ۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک کو دہشت گردی اوربدعنوانی سے پاک کرنے کی امید بندھی تھی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان معاملات میں کم دلچسپی ہے ، بڑے بڑے چور جو پکڑے جا رہے تھے اب آزاد کر دئیے گئے ہیں اورمعاملات بدتر ہو تے جارہے ہیں۔

مجموعی طور پر مستقبل کی صورت حال پریشان کن لگ رہی ہے اور فوری طور پر اصلاحی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ کسی بھی قوم کی ترقی و بقاء کے لئے دو عوامل انتہائی اہم ہیں، پہلامؤثر اور فوری انصاف اوردوسرا اعلی و معیاری تعلیمی نظام جونوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرے۔ مگر افسوس کہ دونوں معاملات ہی بہت تیزی سے تنزلی کا شکارہیں۔ اس زوال کے اصل ذمہ دار اس ملک کے حکمران ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ اگربڑے پیمانے پر با شعور اورتعلیم یافتہ افراد ہونگے تو وہ انہیں بدعنوانی نہیں کرنے دینگے۔

انصاف کے نظام کی ناکامی کی ایک موجودہ مثال پاکستان میں اس وقت بیک وقت تین اعلٰی تعلیمی کمیشن، یعنی ایک وفاقی اور دو صوبائی (سندھ اور پنجاب) کا قیام ہے ۔ دونوں صوبوں کی جامعات کوباقاعدگی سے مختلف صوبائی اور وفاقی اعلٰی تعلیمی کمیشن سے متضاد احکامات موصول ہوتے ہیں اور وہ پریشان ہیں کہ کس پر عمل کریں اور کس پر نہ کریں۔ کسی بھی ملک کو تباہ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کا تعلیمی نظام درہم برہم کر دیا جائے تاکہ نوجوانوں کے ذہن ناکام ہو جائیں اورملک ذہین نوجوانوں مرد اور خواتین سے محروم ہوجائے ۔2010 میں میں نے عدالت کا دروازہ اس وقت کھٹکھٹایا تھاجب اس وقت کی حکومت نے اعلی تعلیمی کمیشن کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اس کے حصے صوبوں میں بانٹنے کی کوشش کی تھی۔ 2011 ءکے اوائل میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ اعلٰیٰ تعلیم وفاق کی ذمہ داری ہےاورآئین کی 18 ویں ترمیم کے تحت اس کے حقوق بحیثیت ایک وفاقی ادارے کےمحفوظ ہیں۔ تاہم اس فیصلے کی صریحاً توہین کرتے ہوئےسندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے وفاقی ایچ ای سی کے متوازی اعلی تعلیمی کمیشن تشکیل کئے۔ جس کے نتیجے میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں انتشار برپا ہو گیا ۔ اس مسئلے کے حل کے لئےمیں نے فروری 2013 ءمیں ایک صوبائی ایچ ای سی کے قیام کے جواز کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں ایک مشترکہ درخواست دائر کی تھی کہ جب وفاقی ایچ ای سی موجود ہے اور پاکستان کے سپریم کورٹ نے اعلی تعلیم کے حوالے سے ایک واضح حکم جاری کردیا ہے کہ اعلی تعلیم کو صوبائی ایچ ای سی میں تحلیل نہیں کیا جا سکتاتو صوبائی ایچ ای سی کے قیام کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ لیکن افسوس تقریباً 5 سال گزرگئے ہیں اور سندھ ہائی کورٹ میں یہ معاملہ اب بھی” زیر غور” ہے ۔ کس قدر شرم کا مقام ہے کہ لاکھوںسینکڑوں نوجوان مرد و خواتین کا مستقبل تباہ ہو رہا ہے اور ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ یہی وقت ہے کہ سپریم کورٹ ا س معاملہ کا ازخود نو ٹس لے اور صوبائی ایچ ای سی کو فوری طور پر بند کرے کیونکہ یہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ سپریم کورٹ کے 2011ء میں صادر کئے گئے فیصلے کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس مشکل صورتحال سے کیسے باہر نکلا جائے؟ عمران خان کی طرف سے تجویز کردہ حل، یعنی قبل از وقت انتخابات اس کا جواب نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارا انتخابی عمل تباہ ہو چکاہے ۔ انتخابات ہمیشہ غیر منصفانہ ہوتے ہیں اور کبھی بھی حقیقی عوامی جذبات کی عکاسی نہیں کرتے ہیں ۔ دراصل یہ پورا عمل جاگیردارانہ شکنجے کے زیر سایہ ہے جہاں بدعنوان اور طاقتور جاگیر داروں کے ہاتھوں میں ووٹ ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہی بدعنوان شخص بار بار بر سر اقتدار آئیں گےچاہے آپ کتنی ہی مرتبہ موجودہ بدعنوان انتخابی عمل کو دہرائیں۔ پاکستان کے غیر ملکی دشمن یہی چاہتے ہیں ۔ بڑے پیمانے پر بدعنوانی کرنے والوں کا صفایا کئے بغیر انتخابات کا انعقاد بہت نقصان دہ ہو سکتا ہے ۔ انتخابی اصلاحات کی فوری ضرورت ہے ۔ اس کے لئے سپریم کورٹ کی طرف سے ایک انتخابی کمیٹی قائم کی جانی چاہئے جو کہ ممتاز اور ایماندار ماہرین کا انتخاب کرے ۔ اس عبوری حکومت کو کم از کم پانچ سال کی مدت کے لئے رکھا جانا ضروری ہے جو ملک کو لوٹنے والوں کو پکڑے اور سزائیں دے ۔ سب سے پہلے ہمارےنظام کوبدعنوانوں سے پاک کیا جائےاور اس کے لئےآئین میں تبدیلیاں کر نا ہونگی ۔کیونکہ ہمارے حکومتی نظام کو مکمل صفائی کی ضرورت ہے جو کہ آئین میں بڑی تبدیلیوں سے ہی ممکن ہے۔ موجودہ آئین میں یہ تبدیلیاںکس طرح کی جاسکتی ہیں اس کا جواب پا کستان کے سپریم کورٹ کو ڈھونڈنا ہوگا کیونکہ ہماری قوم کا مستقبل اسی عمل سے وابستہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے