خیال،،،،، گندم، اونٹ, امریکا اور ہم

یہ بہت پرانی بات ہے، پاکستان بنے کچھ سال ہوئے تھے تو مہاجرین کی بڑی تعداد ہجرت کرکے مسلمانوں کی اس نو قائم شدہ ریاست کو آگئے تھے۔ وسائل تھے نہیں، نئی ریاست، نئی حکومت، نئے گورنر جنرل، نئے وزیراعظم کے زیر انتظام مملکت خداد پاکستان نے اپنا کام شروع کیا۔ تب کراچی دارلحکومت تھا، اور باہر سے امداد سے بھرے جہاز سیدھے دارلحکومت ہی آکر رکتے تھے۔ جب وزیراعظم پاکستان خان لیاقت علی خان نے امریکا اور روس میں سے امریکا کا انتخاب کیا تو، ایک بڑا جہاز گندم لے کر آگیا۔ جہاز سے گندم اتار کر اونٹوں پر لادی گئی۔ کیوں کہ نوزائیدہ مملکت کے پاس کوئی بڑے ٹرک نہیں تھے، اور وہ بھلا زمانہ تھا، ابھی ہم صرف غریب تھے۔ اونٹوں پر لادی ہوئی گندم، ہماری غیرت پر پیر رکھ کر کب سر چڑھ کر بولنے لگی، اور بوریوں میں سے گندم کے دانوں کے بجائے بندوق، اسلحہ نکلنے لگا، معلوم نہیں۔ روس کے معاملہ میں، یہاں کسی بھی مسئلے میں، ہمیں امریکا نے پیسوں کے بل پر خریدنے کی کوشش کی، کامیاب یا ناکام مجھے کہنے کی ضرورت نہیں۔ امریکا نے کارگل ہو، کشمیر، اکہتر کا پاک بھارت معرکہ، ہمیشہ بھارت کا ہی ساتھ دیا۔ جہاں تک تعلق ہے پینسٹھ کی جنگ کا، تب ہمارا بہترین دوست امریکا ہماری امداد بند کرکے، لاہور جم خانہ پر ناشتے اور ناؤنوش کا خواب ہندو بنئیے کی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ دو ہزار ایک کے بعد تو منظر نامہ ہی بدل گیا، ہم امریکا کے کی جنگ میں شامل ہوگئے۔ میرا خیال ہے کہ امریکا کی جنگ تب تک تھی جب تک ہم کودے نہ تھے، پھر یہ ہوا کہ کبھی لاہور ، کبھی کراچی، کبھی فاٹا، کبھی پاکستان کا کوئی اور شہر، یوں بھی ہوا، کہ صبح کراچی میں جنازے اٹھے ، دوپہر پنڈی میں اور رات پھر کوئٹہ دہشتگرد حملے سے کانپ اٹھا۔

قربانیوں اور لہو رنگ داستانوں نے عزم و ہمت کے مینارے کھڑے کردئیے، لیکن ہمارا قریبی دوست، ہمارا جگر، امریکا آنکھیں بند کئیے ڈو مور ڈومور کہتا رہا، اب حد آئی ہے، پاکستان دو ہزار ایک کا پاکستان نہیں رہا، سوات، فاٹا اور دیگر علاقوں سے دہشتگردوں اور پڑوسی ممالک کی دہشتگردی کی چین توڑ چکا ہے، پاک فوج دہشتگردوں پر غالب آچکی ہے، اب جب پاکستان نے نو مور کہہ کر امریکا کی ٹکے سی کردی، اور ہماری خارجہ پالیسی اپنے گھوڑے مغرب سے موڑ چکی ہے، اور اب مشرق اور شمال ہماری آماجگاہ بن رہا ہے، جنہوں نے اپنے بازو کھول کر صبح کے بھولے کو خوش آمدید کہا ہے، اور امریکا نے ہمارے نقصان اور قربانیوں، کامیابیوں کو نظرانداز کرکے جتا دیا ہے کہ ہم نے 33 بلین ڈالر وصول کئے۔ مجھے کچھ معلوم نہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ اس 33 بلین ڈالر میں وہ اونٹوں پر لادی گندم کے پیسے بھی شامل ہیں، اور اب ہم سے ہماری غلطی کا یہ جرمانہ بھی وصول کیا جائے گا، ہم بھی امریکا کو گندم بھیج کر ابتداء کرتے ہیں، بات وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے پہلے شروع ہوئی تھی، میں ضرور واشنگٹن کی سڑکوں پر گندم سے لدے اونٹ اور ان کے گلے میں شکریہ پاکستان کی تختیاں ضرور دیکھنا چاہوں گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے