قصور کے علاقے روڈ کوٹ کے رہائشی امین سکول ٹیچر کی بیٹی سات سالہ پیاری سی بچی زینب امین کو نامعلوم درندوں نے چار دن پہلے اغوا کیاپھر زیادتی کا نشانہ بناکرقتل کر دیا۔ کم سن زینب کے والدین عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب گئے ہوئے تھے جو وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ پولیس کے مطابق سات سالہ زینب کو پانچ جنوری کو ٹیوشن کے لئے جاتے ہوئے راستے سے اغوا کیا گیا اور چار دن بعد اس کی لاش کشمیر چوک کے قریب سڑک کنارے کچرے سے برآمد ہوئی۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کے بعد گلا دبا کر قتل کیا گیا ۔مقتولہ زینب کا پوسٹ مارٹم مکمل کرکے نمونے ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے اسلام آباد بھجوادیئے گئے ہیں۔دوسری جانب پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق شہر میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے تفتیش جاری ہے جبکہ بچی کے لواحقین نے بھی سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کی ہے جس میں بچی کو ملزم کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
میں نے جب زینب کی تصویر دیکھی تونصف گھنٹہ زہن مکمل ماوف رہا اور میں اس تکلیف اور کرب کو سوچ کر چکرا گیا جو اس معصوم نے برداشت کیا اور ظلم کی چکی سے گزر کا اپنی جان دی۔اس معصوم کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کی دمک دیکھ کر محسوس ہورہا ہے کہ اس پیاری بٹیا نے زندگی کو کتنا حسین جانا تھا اسے تو کبھی ایسا معلوم نہیں ہوا تھا کہ معاشرے میں موجود کوئی انکل۔۔۔چاچو۔۔۔ماموں ایسی سفاکیت بھی کر سکتا ہے۔۔
ماں میرا قصور نہیں تھا
اک چاچو سے ٹافی ہی تو لے لی
بابا سا وہ لگتا تھا
مجھے بولا تم بیٹی ہو میری
اس کے پہلو میں بیٹھ گئی میں
ٹافی کھاتی باتیں کرتی
ہاتھ میرے جو سر پر پھیرا
میں سمجھی تھی انسان ہی ہوگا
اس کی بھی کوئی بیٹی ہوگی شاید
اس نے چوما مجھ کو
میں بھی خوش ہوکر گلے سے لگ گئی
ماں میرا قصور نہیں تھا
اک چاچو سے ٹافی لے لی.
دس کا نوٹ بھی پکڑایا تھا
مجھکو جیسے بابا یاد آیا
خوشی لیکر سوچا میں نے
چاچو کے پیسوں سے دورپے کی
ٹافی ہے میں نے اور بھی لینی
تین روپے بھئیا کو دونگی
پانچھ کی گڑیا لینے ہے میں نے
ایسے میں وہ باتیں کرتا
مجھ کو گھر سے دور لے آیا
ماں میرا قصور نہیں تھا
اک چاچو سے ٹافی لے لی
مجھ کو کچھ بھی سمجھ نا آیا
اس نے اچانک لہجہ بدلا
مجھے زمین پر لٹایا
منہ میرا جو بند کیا تو
مجھ پھر معلوم نہیں تھا
چلا کر تجھ کو بلانا چاہا
ماں میرے معصوم جسم کو
چاچو نے گوشت کا ٹکڑا سمجھا
کتے کی طرح کاٹا مجھکو
بلی کی طرح وہ دیکھ رہا تھا
ماں اب میں سہہ نا پائی
تیری آج کلی مرجھاگئی
ماں میرے ہاتھ میں دیکھو
اک ٹافی تو کھا لی میں نے
اک ٹافی ہاتھ میں ہوگی
ماں اب کے بار گر پیدا ہوؤں میں
مجھ کو خود سے دور نا کرنا
ماں میں گوشت کا ٹکڑا تھی کیا؟
میں نے کیا مانگا تھا؟
اک ٹافی کے بدلے؟
ماں میں جان گوا کر آئی،
ماں میں چڑیا تھی تیری
اک دانے پر جان گوائی
ماں اب کے بار گر پیدا ہوؤں میں
مجھ کو خود سے دور نا کرنا!!!
مجھ کو خود سے دور نا کرنا!!!??
اس سےقبل بھی بچوں کے خلاف زیادتی کے جرائم کےبہت سےواقعات ہمارے سامنے آتے رہتےہیں ،اخبارات کے جرم وانصاف کے صفحات بھرے پڑے ہوتے ہیں ۔ریپ کے کیسز میں مجرم کا پتا لگانے میں جہاں پولیس کی انتظامی کارروائی میں کمزوریاں ہیں وہیں والدین کی جانب سے قسمت کو مان کر کوئی کاروئی نہ کرنا اور لاعلمی اور معاشرے میں آگاہی کا نہ ہونا بھی اس کی بڑی وجوہات ہیں۔جن کے پیاروں کےساتھ واقعہ ہوتا ہے وہ تو سکتے ہیں ہوتے ہیں اورہمارا اس پر طرز عمل عمومی ہوتا ہے،ملک بھر میں ایسےواقعات ہوتے رہتے ہیں اور ہم اور ہمارے ادارے معصوموں کے قتل پر سوتے رہتے ہیں۔۔۔!!اس سے قبل قصور میں ہی بچوں سے زیادتی کی دیدہ دلیری کا یہ عالم تھا کہ زیادتی کے دوران ویڈیو بناکروالدین کو حراساں کیا جاتا تھا ، اور 270 سے زائد بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ہم نے وہ ایکشن کیوں نہ لیئے کہ انسانیت سوز واقعات کی روک تھام ممکن ہوجاتی اور درندے مرجاتے۔۔۔ڈر جاتے۔۔ ہم نے کیوں نہیں کسی کو نشان عبرت بنایا۔۔۔!!!
لوگوں کا کہنا ہے کہ بیٹی زینب کی خبر کو کیوں اتنا اجاگر کر کے چلایا جارہا ہے ۔میں تو برملا شور مچا کرکہتا ہوں کہ میری معصوم بیٹی زینب سے ظلم کرنے والاقاتل پکڑا جائے تو ضابطے چھوڑ کر اس کو بیچ چوراہے کے لٹکا کر سنگسار کیا جائے۔۔۔تاکہ یہ پورے معاشرے میں چھپی کالی بھیڑوں کیلئے بھی عبرت کا نشان بنے۔ ۔۔ہمارے معصوموں سے زیادتی کرنے والے مجرموں کے لیے سخت سے سخت سزائیں ہونی چاہیں۔آئندہ ایسے واقعات سے بچنے کیلئے نئی سزائیں تجویز کرنے کے علاوہ ان واقعات کےمختلف پہلوں کو مدنظر رکھ کر ہمیں اپنےبیٹے ،بیٹیوں کو ان مسائل سے متعلق آگاہی کی فراہمی بھی ضروری ہے۔ ہمیں انہیں بتانا چاہیے کہ ماں باپ یا انتہائی قریبی رشتہ داروں کےعلاوہ دوسروں کے ساتھ کیسے رہا جاتا ہے۔
آخر میں ایک ساتھی کالم نگار کی جانب سےشیئر کردہ قطعہ عرض ہے جو پورے معاشرے کی غفلت کی حقیقی عکاسی کرتا ہے۔
نیلی آنکھوں والی گڑیا !!!!
ہم تجھ سے شرمندہ ہیں
ماں تیری تو روز مرے گی
قاتل جب تک زندہ ہیں !!!!
ہم اس قوم کے غافل لوگ
سب ہی جواب دہندہ ہیں
تجھ پر جو بیتی ہے اس پر
زینب !!!ہم شرمندہ ہیں!!!!