سر سید احمد خان اور روایتی علماء

گزشتہ کئی دنوں سے تمنا دل میں کروٹیں لیتی رہی ہیں کہ سر سید احمد خان کے حوالے سے جاری مکالمے میں شریک ہوجاوں، مگر بڑے بڑے اساطین ادب اور ارباب علم و دانش کے سامنے لکھنےکی جرات نہیں کرپارہا، افسوس کہ اس سارے مکالمے میں بعض اوقات غلو سے کام لیا جا رہا ہے کوئی انہیں قومی ہیرو اور مسلمانوں کا نجات دہندہ جیسے القاب سے نوازتا ہے۔ جب کہ کوئی ایسٹ انڈیا کمپنی کاایجنٹ ،انگریز بہادر اور بے دین نیچری۔۔۔

روایتی اور غیرروایتی طبقےسرسیدکے عام قومی،مذہبی اور تعلیمی خدمات کی قائل رہے ہیں، اصلاح مذہب کی تحریک کے پہلے دورمیں انہوں نے مسیحی معترضین کا مقابلہ کیا، دوسرا دور سفر انگلستان کے بعدکا ہے،جس میں ان کا واسطہ روایت پسند مولویوں سے پڑا،اور یہی سے راستے الگ ہوئے، سرسید اور روایت پسند علما کے درمیان قلمی محاذ آرائی کا سب سے زیاددہ نقصان علی گڑھ کے تعلیمی تحریک کو ہوا،اور سرسید کے تعلیمی خدمات پر بھی انگلیاں اٹھانے لگے، جبکہ دوسرے طرف سرسید روایتی علما سے اختلاف میں اس قدر آگے چلے، کہ بیک جنبش قلم قدیم فقہا اور مفسرین پر بھی تنقیدات واعتراضات کی بوچھاڑ کردی ،اس پس منظر میں استاذمحترم مولانا ابراہیم فانی مرحوم کا یہ اقتباس روایتی مکتبہ فکر اور سرسید کے درمیان تنازعےکوسمجھنے میں معاون ثابت ہوگا۔ فانی صاحب رقمطراز ہیں:

"بانی دارالعلوم دیو بند حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کو جب اس کے(سرسید) افکارِ باطلہ اور خیالات کا سدہ کا علم ہوا۔ تو اپنے ہم سبق ہونے کے ناطے کیونکہ یہ دونوں مولانا مملوک علی کے تلامذہ سے تھے انہوں نے آپ کو مکتوب میں لکھا کہ میں آپ کے پاس آپ کی تصحیح عقائد کی خاطر حاضر ہو رہا ہوں تو سر سید نے نہایت شانِ خسر وانہ اور انداز بے نیازی سے حجة الاسلام کو غالب کا یہ شعر لکھا

حضرت نا صح جو آو یں دیدہ و دل فرش راہ کوئی مجھ کو سمجھا ویں کہ سمجھا ویں گے کیا؟

بانی دارالعلوم نے جواب الجواب میں اپنی خدا داد استحضار عملی کے بدولت اور جواب تر کی بہ ترکی کے مصداق غالب کی اسی ہی غزل سے ان کو یہ شعر لکھا۔

بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
میں سناؤ ں حال دل اور آپ فرمائیں گے کیا؟

(بحوالہ مکتوبات مشاہیر مرتبہ مولانا سمیع الحق اکوڑہ خٹک

سرسید مرحوم کے عقائد کے حوالے سے یہی موقف ہم اپنے روایتی ماحول میں عرصہ دراز سےسنتےآرہے ہیں،مگر کسی نے یہ غورکیا ہے کہ اس وقت سرسید کے حالات کیا تھے؟انہیں کن چیلنجز کا سامنا تھا؟وہ کون سے عوامل تھے جس نے ایک روایت پسند شخص کو جدت پسند بنانے پر مجبور کیا؟آخر وہ کونسے وجوہات تھے جس نے خطبات احمدیہ جیسی کتاب کے مصنف کو نیچریت تک لے گئی۔اگرچہ اس سارے ارتقائی سفر میں سرسید کے دور کے سیاسی حالات و واقعات سمیت ہندوستان میں برطانوی سامراج کیساتھ مفاہمت نے ان کی سوچ کو تبدیل کرنے میں کلیدی کردار اداکیا، مگر اس کے علاوہ جس طبقے کیساتھ ان کا سامنا تھا، ان پس منظر بالکل مختلف تھا،

سرسید کے اس پہلو پرسوچتا رہا کہ ماہنامہ ’’برہان‘‘ دہلی کے پرانے فائلوں میں مولانا حکیم فضل الرحمن صاحب سواتی کا ایک مضمون ’’سرسید احمد اوردیوبند‘‘ نظر سےگزراجس میں انہوں نے ملا دوست محمد خان قندہاری کی سرسید احمد خان سے ایک مبینہ ملاقات کا واقعہ خود انہی کی زبانی بیان کیا ہے ، مذکورہ سوالات اور سرسید کے حوالے سے جاری مکالمےمیں یہ واقعہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ مولانا لکھتےہیں

’’میری عمر کم و بیش ۱۴ برس کی تھی، میرے استاد جو میرے والد بزرگوار کے شاگرد بھی تھے، میں ان سے شرح جامی پڑھ رہا تھا کہ ان کوایک خط موضع چارسدہ ضلع پشاور سے ان کے استاد ملا دوست محمد خان قندہاری کے پاس سے ملا کہ فوراًٍ چلے ٓاؤ، جمعہ کے روز یہاں ایک عظیم الشان فاتحہ خوانی ہے، اس میں آپ کی شرکت ضروری ہے۔ خط دیکھتے ہی آپ جانے کے لئے آمادہ ہوگئے۔ میں بھی ساتھ ہوگیا۔ دوسرے روز صبح آٹھ بجے چارسدہ پہنچے۔ یہاں جامع مسجد میں جاکر دیکھا کہ لوگ بہت بڑی تعداد میں تلاوت قرآن میں مشغول تھے۔ ہم بھی تلاوت کرنے لگے۔ ملا دوست محمد خان صاحب نے کہاکہ علی گڑھ کے سرسید احمد خان کا انتقال ہوچکا ہے،یہ قرآن خوانی ان کے حق میں ہے، ایک صاحب نے کہا’’وہ نیچری تھے، وہ ایسی فاتحہ خوانی کے قائل نہ تھے پھر ان کے حق میں یہ فاتحہ خوانی کیوں کی جاتی ہے؟‘‘ ملا دوست محمد خان نے کہاکہ ’’ہم بھی پہلے ان کو نیچری ہی سمجھتے تھے، دارالعلوم دیوبند جب قائم ہوا تو میں اس میں داخل ہوا اور تعلیم پانے لگا، دارالعلوم کے جملہ اساتذہ اور طلبہ سرسید احمد خان کو بہت برا بھلا کہتے تھے کہ وہ اسلام کے حامی نہیں ہیں بلکہ حکومت برطانیہ کے حامی اور ثنا خواں ہیں اور یہ بھی سنتا تھا کہ علی گڑھ والے دیوبند والوں کو برابھلا کہتے ہیں، اس لئے میرے دل میں سرسید احمد خان صاحب سے سخت نفرت پیدا ہوگئی۔آٹھ سال تو یونہی گزر گئے، جب میں فارغ التحصیل ہوگیا توایک دن سرسید کی تفسیر قرآن میری نظر سے گزری، جس نے علمائے دیوبند کو بہت برافروختہ کررکھا تھا، ایک دن میں نے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب ؒ سے عرض کیا کہ اس تفسیر میں وہ کون سے مقامات ہیں جو اسلام کے خلاف ہیں؟ انہوں نے ان مقامات کو دکھایا تو میرے دل میں سرسید کے خلاف سخت نفرت پیدا ہوگئی کیونکہ اس تفسیر میں جن و شیاطین اور ملائکہ کا انکار تھا۔ میں سخت طیش میں آگیا اور تفسیر بغل میں رکھی اور بڑی مضبوط لکڑی ہاتھ میں لے کر سرسید کا سرپھوڑنے کی غرض سے علی گڑھ روانہ ہوگیا۔‘‘

’’علی گڑھ پہنچ کر کالج پہنچا اورپوچھا کہ سرسید احمد کہاں ہیں؟ کسی نے کہاکہ سامنے جو کمرہ دکھائی دیتا ہے وہ اس میں بیٹھے ہیں۔ میں جب اس کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک بزرگ بیٹھے ہوئے ہیں، گھنی اور لمبی داڑھی ،چہرہ خوبصورت اور بارعب شیروانی اور پاجامہ زیب تن ہے۔ میں نے السلام علیکم کہا اور پوچھا کہ سرسید احمد خان کہاں ہیں؟ میں ان سے ملنے آیا ہوں۔انہوں نے کہاکہ ’’ان سے ‘‘ آپ کو کیا کام ہے اور آپ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے کہاکہ ’’دیوبند سے آیا ہوں اور یہ تفسیر ،جو ان کی تصنیف ہے اس کے متعلق ان سے گفتگو کرنی ہے۔‘‘ انہوں نے کہاکہ ’’آپ تشریف رکھیے‘‘ اورادھر چپڑاسی سے کہاکہ ٹھنڈا شربت بنا کر انہیں پلادو۔ چپڑاسی نے فوراً تعمیل کی ۔ گرمی کے دن تھے اس لئے ٹھنڈا شربت پیتے ہی میرا جوش فرو ہوگیا۔ اور دل میں جو خیال تھا کہ سرسید کا سرپھوڑ دوں گا تو وہ خیال دل سے جاتا رہا، اب صرف گفتگو کا خیال باقی رہا۔ اتنے میں ایک نوجوان ،جو کوٹ پتلون میں ملبوس تھا، سرسید نے اس سے کہا ’’دیکھو ،یہ صاحب دیوبند سے آئے ہیں نسلاً تو افغان معلوم ہوتے ہیں لیکن دارالعلوم دیوبند کا فارغ التحصیل ہیں۔ جب سے ہمارا کالج قائم ہوا ہے دیوبند کا کوئی عالم یا فارغ التحصیل یہاں نہیں آیا ہے ۔یہ پہلا اتفاق ہے جو ملا صاحب تشریف لائے ہیں‘‘ یہ سنتے ہی وہ نوجوان مجھ سے بڑی محبت سے پیش آیا اور میری دست بوسی کی۔ اس کے بعد سرسید نے مجھ سے کہا کہ ’’اس نوجوان کو کچھ نصیحت کیجئے،یہ کالج میں انگریزی کی تعلیم پارہا ہے، علوم دینیہ سے واقف نہیں ‘‘ میں نے کہا ’’میں کوئی مقرر نہیں ہوں میں دارالعلوم میں آٹھ سال تعلیم پاکر اب فارغ التحصیل ہوا ہوں۔ سند پاکر وطن جانے کے اراد ےمیں تھا کہ یہاں آگیا‘‘۔

انہوں نے فرمایا کہ ’’تقریر کی کوئی ضرورت نہیں ہے،آج کی رات شب ِ معراج ہے، معراج کے بارے میں کچھ کہیے‘‘ اس پر میں نے وہ طویل حدیث بیان کرنا شروع کردی جو کتب احادیث میں ہے۔ میں نے کہا’’ رات کے وقت حضرت جبریلؑ براق لے کر آئے ،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کواس پر سوار کرادیا اور ایک لحظہ میں بیت المقدس پہنچے۔ وہاں تمام انبیا علیہم السلام جمع تھے، آپ نے امامت کی،پھر اوپر آسمانوں کی طرف پرواز کی، جب سدرۃ المنتہی پہنچے تو حضرت جبریلؑ یہاں رک گئے اور اللہ تعالی نے ان کواپنے پاس بلا لیا اوراپنے آپ کو انہیں دکھا دیا اور تمام امور شرعیہ سے آگاہ کردیا‘‘ وہ نوجوان یہ تمام باتیں سن کر بہت برا فروختہ ہوا او ربولا ’’ہم تو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ عیسوی اور یہودی مذہب میں ہی خلاف عقل باتیں ہوتی ہیں، اسلام میں ایسی باتیں جو خلاف عقل ہوں نہیں ہوتیں‘‘ یہ سن کر مجھے اس نوجوان پر بہت غصہ آیا لیکن سرسید کا رعب مجھ پر ایسا طاری تھا کہ میں کچھ نہ بولا۔اب سرسید نے مجھ سے کہا’’ آپ کے پاس جو تفسیر ہے اس کھول کر دیکھئے،آیت معراج کے تحت اس میں کیا لکھا ہے ؟ اس تفسیر کو غور سے دیکھئے اور اس نوجوان کو بھی سنا دیجئے‘‘۔ چنانچہ میں نے اسے دیکھا۔ اس میں درج تھا کہ معراج جسمانی نہ تھی بلکہ روحانی تھی اور یہ روایت حضرت عائشہ ؓ اور بعض دوسرے صحابہؓ سے مروی بتائی گئی تھی۔ یہ سن کر نوجوان آمنا و صدقنا پکارنے لگا‘‘۔

’’اب سرسید نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا’’ ملا جی! یہ کتاب میں نے ان طلبہ کے واسطے لکھی ہے جو انگریزی کی تعلیم پارہے ہیں،مذہب کی کوئی بات خلاف عقل ہو تو یہ تسلیم نہیں کرتے۔آپ نے جو حدیث سنائی اس کے حرف حرف پر میرا عقیدہ ہے ۔ ان اللہ علی کل شی قدیر۔ بالکل صحیح ہے ۔ ملائکہ جو آسمانوں پر ہیں ایک لحظہ میں زمین پر اتر جاتے ہیں اور ہمارے رسول پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم چند منٹوں میں سدرۃ المنتہی تک پہنچ گئے او راپنے محبوب پاک سے ملاقی ہوئے۔ پھر جنت او ردوزخ کا بھی اچھی طرح معائنہ کیا۔ یہ سب باتیں ایسی ہیں جن پرمیرا ایمان او ریقین کامل ہے۔ میں علمائے دیوبند کو ورثۃ الانبیا کہتا ہوں۔ ان سے کہئے کہ وہ مجھے اپنا بھائی خیال کریں۔ انما المومنون اخوۃ۔ یہ کالج میں نے اس لئے قائم کیا ہے کہ حکومت مسلمانوں پر نظر عنایت مبذول رکھے اورانہیں دشمن نہ سمجھے۔ ہندو بھائیوں نے تو حکومت میں اچھا اقتدار حاصل کیا ہے اب اگرہم حکومت کا اعتماد حاصل نہ کریں گے تو حکومت میں کوئی جگہ نہ ملے گی۔ میں اور کالج کے اساتذہ اورطلبہ مذہب سے روگرداں نہیں ہیں، جب کالج قائم ہوا تھا توا سوقت میں نے جو تقریر کی تھی اس میں یہ الفاظ تھے کہ کالج کے طلبہ کے سرپر قرآن ہوگا اور سیدھے ہاتھ میں احادیث ہوں گی اور بائیں ہاتھ میں دنیوی علوم کی کتابیں۔ آپ علمائے دیوبند سے پوچھئے کہ میری تفسیر میں کیا کوئی ایسی بات ہے جو شیخ بوعلی سینا کی کتابوں میں موجود نہ ہو؟ شیخ بو علی سینا کی تصانیف تو دارالعلو م کے نصاب ِ تعلیم میں داخل ہیں او رمجھے ناحق ملحد کہتے ہیں‘‘۔ یہ سنتے ہی میں سرسید احمد خان سے بغلگیر ہوگیا اور صاف الفاظ میں کہا کہ آپ اپنی بات پر قائم رہئے ،میں علمائے دیوبند کو آپ کے خیالات سے اچھی طرح سے آگاہ کردوں گا،اور وہ لکڑی جوان کا سرپھوڑنے کے لئے میرے ہاتھ میں تھی اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے باہر پھینک دیا۔‘‘

(بحوالہ ماہنامہ ’’برہان‘‘ دہلی شمارہ ستمبر ۱۹۶۶ ازقلم مولانا حکیم فضل الرحمن سواتی بعنوان ’’سرسید احمد اوردیوبند‘‘ )

میرے خیال سے اس واقعے کو سامنےرکھ کر اس دور کے مسائل اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جب سرسید کے حوالے مکالمہ جاری رکھیں گے تو بہت سے گھتیاں خود بخود سلجھ جائیں گیـ اگرچہ سرسید کے سب سے بڑے نقاد اور مورخ جناب ضیاءالدین لاہوری نے اس واقعے کی صحت پر کئی سوالات اٹھائے ہیں، جن کی تفصیلات ماہنامہ الحق شمارہ اپریل 1996میں دیکھےجاسکتے ہیں، مگر اس واقعے کے علاوہ بھی سرسید کے زندگی میں ایسے بہت سے موڑ آئے۔جس نے ان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے،انہوں نےعمل کے بجائے عقیدے پر فوکس کیا، مسلمانوں کے اجتماعات سے دور رہنے لگے۔ روایتی طبقے کے خلاف کھل کر سامنے آگئے، مسلمانوں کی پستی اور زبوں حالی کا مرثیہ گانے لگے،الغرض سرسید کے زندگی کے ان تمام ادوار اور ان سے پھوٹنے والے تمام افکار کو ساتھ لیکر ،ان کی شاندار ماضی سے ہم اپنی تابناک مستقبل کی تصویر کھینچ سکتے ہیں۔بشرطیکہ سرسید مرحوم کے جملہ حالات و واقعات کو سامنے رکھ کردرست تجزیہ کرلیں، کیونکہ فکرسرسید اور روایتی علما کے درمیان سردجنگ آج بھی جاری ہے، دونوں کے درمیان نفرتوں کی دیوار آج بھی کھڑی ہے، دونوں گروہ اپنے موقف پر نظرثانی کیلئے تیار نہیں، میرے خیال سے اب وہ وقت آگیا ہے کہ ایک مثبت مکالمے کے ذریعے اس بحران سے نکل سکیں
وگرنہ۔۔۔۔ ہماری داستاں نہ ہوگی دنیا کے داستانوں میں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے