دینی مدارس کی عصری معنویت پر ایک نئی کتاب شائع ہوئی ہے۔ اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد میں اس کی تعارفی تقریب ہوئی تو سنجیدہ حلقوں میں ایک بار پھر مدارس کا سماجی کردار زیرِ بحث آیا۔
اس تقریب کا اہتمام ‘اقبال انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ نے کیا‘ جس نے الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ کے اشتراک سے یہ کتاب شائع کی ہے۔ ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسن الامین کی علم دوستی نے اس تقریب کو یادگار بنا دیا۔ ڈاکٹر خالد مسعود، عامر رانا، عمار خان ناصر اور بہت سے اہلِ علم اس تقریب کی رونق تھے۔ ایسی تقاریب کا بہت کم انعقاد ہوتا ہے، جن میں سامعین کی ذہنی سطح مقررین کی علمی سطح سے کم نہ ہو۔ یہ بھی ایسا ہی ایک نادر اجتماع تھا۔ تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں کتاب کے مصنف ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ بنفسِ نفیس موجود تھے۔
ڈاکٹر صاحب کا تعلق جنوبی افریقہ سے ہے۔ دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلما لکھنو میں چھ سال پڑھا۔ اردو زبان سے اچھی طرح واقف اور اس میں اظہار کی قدرت رکھتے ہیں۔ ان دنوں امریکہ کی یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم میں ایک شعبے کے ڈائریکٹر ہیں۔ دو سال پہلے ان کی یہ کتاب انگریزی میں شائع ہوئی تو اس کا عنوان تھا ”مدرسہ کیا ہے؟‘‘ (What is Madrasa)۔ 2017ء میں بھارت سے اس کا اردو ترجمہ سامنے آیا۔ ایک جید عالم وارث مظہری نے یہ ترجمہ کیا۔ یہی ترجمہ اب پاکستان سے بھی شائع ہوا ہے۔
ڈاکٹر صاحب مدرسے کے ساتھ مغرب کے تعلیمی اداروں میں بھی زیرِ تعلیم رہے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ان دونوں نظام ہائے تعلیم سے گزرنے کے بعد، اگر آج ان کو موقع ملے کہ وہ اپنی پسند کے تعلیمی ادارے کا انتخاب کریں تو وہ مدرسے کو ترجیح دیں گے۔ اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ مدرسے کے ساتھ خیر خواہی کا کیسا تعلق رکھتے ہیں۔ تاہم اس کتاب میں انہوں نے مدارس پر تنقید بھی کی ہے۔
یہ کتاب دراصل مغربی معاشرے کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئی لکھی گئی ہے۔ 9/11 کے بعد جب مدرسہ بحث کا موضوع بنا تو لوگوں میں یہ جاننے کی خواہش پیدا ہوئی کہ مدرسہ کیا ہے۔ بہت سے قلم کاروں نے مدارس پر لکھا مگر ان میں زیادہ تر وہ تھے‘ جن کی معلومات ثانوی ذرائع سے ماخوذ تھیں۔ ڈاکٹرابراہیم موسیٰ نے آپ بیتی لکھی ہے۔ یوں اس باب میں ان کی گواہی معتبر سمجھی جائے گی۔
مدارس ایک طرح سے ہم سب کی آپ بیتی ہیں۔ مدارس نے پورے معاشرے کے دینی تصورات اور مزاج پر اثر ڈالا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی اس سے متاثر ہوا ہے۔ ہماری مساجد ان مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والوں سے آباد ہیں۔ انہوں نے مدارس سے جو دین سیکھا، وہی معاشرے میں پھیلایا۔ ہمارے سیاسی بیانیے پر بھی مدارس کے اثرات ہیں کہ ہماری مذہبی‘ سیاسی جماعتوں کے قائدین کا بڑا طبقہ ان کے فضلا پر مشتمل ہے۔ اس لیے ہر پاکستانی شخصی تجربے کی بنیاد پر رائے دے سکتا ہے کہ مدرسے کی عصری معنویت کیا ہے۔ ہر شہری اس مذہبی و سیاسی بیانیے سے براہ راست متاثر ہوا ہے جو ان مدارس میں پروان چڑھا‘ لہٰذا اس باب میں ایک عام پاکستانی کی رائے بھی اتنی ہی معتبر ہے جتنی ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ جیسے محققین کی رائے۔
دینی مدارس کا سماجی کردار یا ‘عصری‘ معنویت آج پہلی زیرِ بحث نہیں آ رہے۔ مدرسے کا یہ کردار ہر ‘عصر‘ میں موضوع بنا رہا۔ تقسیمِ ہند سے چند سال پہلے مولانا مناظر احسن گیلانی نے بھی اس پر لکھا۔ اس باب میں ان کی کتاب ‘پاک و ہند میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت‘ معلومات کا ایک خزانہ ہے۔ مولانا گیلانی دارالعلوم دیوبند کے ان فرزندوں میں سے ہیں‘ جن پر یہ ادارہ ہمیشہ فخر کرتا رہے گا۔ دو جلدوں پر مشتمل، سات سو سے زائد صفحات کی اس کتاب میں، مدارس کو ختم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
مولانا مناظر احسن گیلانی نے ”نظریہ وحدتِ نظامِ تعلیم‘ کے نام سے جو تصورِ تعلیم پیش کیا ہے، اس میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے لیے عمومی تعلیم کا ایک ہی نظام ہو جس میں جدید تعلیم کے ساتھ اسلامیات کی اتنی تعلیم شامل کر دی جائے کہ بی اے کی سطح تک پہنچنے والا ہر طالب علم، بنیادی دینی تعلیمات سے واقف ہو جائے۔ مولانا کے الفاظ میں ”ایسی صورت میں پھر دینیات کے مدارس کے نام سے الگ عام مدارس قائم کرنے کی ضرورت مسلمانوں کو باقی نہ رہے گی۔ ہر عالم اس وقت گریجویٹ ہو گا اور ہر گریجویٹ عالم۔ ملا ہی مسٹر ہوں گے اور مسٹر ملا۔ عالم اور تعلیم یافتہ کی تفریق کا قصہ ختم ہو جائے گا‘‘۔
مولانا گیلانی نے اپنی اس تجویز کی مزید تفصیل بیان کرنے کے بعد یہ لکھا ہے: ”میرا خیال ہے کہ وحدتِ تعلیم کے نظریہ پر اگر اتفاق کر لیا جائے تو عربی کے عام مدارس (دینی مدارس) کو مدارس فوقانیہ (ہائی سکول) کی شکل میں بدل دیا جائے جن میں دینیات کی تعلیم صرف قرآن پڑھانے تک ختم ہو جائے گی‘‘۔ مولانا کا مزید کہنا یہ ہے کہ اس کے بعد دین کی اعلیٰ تعلیم یا تخصص کے لیے بعض مدارس کو مخصوص کیا جا سکتا ہے۔ متحدہ ہندوستان کے تناظر میں ان کی تجویز تھی کہ تفسیر کے لیے ندوہ، حدیث کے لیے دیوبند اور فقہ کے لیے فرنگی محل میں کوئی تکمیلی ادارہ بنا دیا جائے۔
مولانا مناظر احسن گیلانی نے ان اعتراضات کے جواب بھی دیے‘ جو اس تجویز پر اٹھائے جا سکتے ہیں یا اٹھائے گئے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سید سلمان ندوی جیسے علما نے اس کی حمایت کی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ اسے ندوہ کے جریدے ‘معارف‘ کے لیے مرتب کیا جائے۔ یوں اس وحدتِ تعلیم کے تصور پر مبنی ان کا مضمون ‘معارف‘ کے جولائی 1945ء کے شمارے میں شائع ہوا۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ ایسی تجویز پر پاکستان بننے کے بعد بھی عمل نہ ہو سکا جب معاملات خود مسلمانوں کے ہاتھ میں تھے۔ کم و بیش ستر سال بعد جاوید احمد غامدی صاحب نے اسی تجویز کو قدرے ترمیم کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا بھی یہی ہے کہ تمام بچوں کو بارہ سال کی ایک جیسی ابتدائی تعلیم دی جائے۔ مسلمان طلبا و طالبات کے لیے دین کی ابتدائی اور ضروری تعلیم کو اس نصاب کا حصہ بنا دیا جائے۔ ابتدائی عربی زبان کی تدریس سے طالب علم کو قرآن مجید سے اس طرح وابستہ کر دیا جائے کہ بارہ سال کی تعلیم کے بعد وہ متن کو سمجھ سکے۔ رہی بات دین کے علما تیار کرنے کی تو اس کے لیے بارہ سال کی تعلیم کے بعد، تخصص کے ویسے ادارے ہونے چاہئیں جیسے ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔ یوں دینی مدارس کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
اگر اس تجویز کو آج قبول کر لیا جائے تو مولانا گیلانی کی تجویز کے مطابق مدارس ختم کرکے انہیں عمومی تعلیم کے اداروں میں بدل دینا چاہیے۔ ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کی کتاب کے تعارف کے لیے برپا ہونے والی تقریب میں، مولانا مناظر احسن گیلانی کی اس تجویز کا ذکر بھی ہوا۔ مولانا گیلانی خوش قسمت تھے کہ آج کے دور میں پیدا نہیں ہوئے‘ ورنہ ان کی تجویز مردود اور وہ امریکی ایجنٹ قرار پاتے۔
گلیلیو نے جب کلیسا کو چیلنج کرتے ہوئے یہ کہا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو اسے اپنا مؤقف واپس لینے پر مجبور کر دیا گیا۔ اس نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میرے موقف واپس لینے سے زمین کی گردش رکنے والی نہیں۔ ہم بھی اس تجویز کو مسترد کر سکتے ہیں مگر زمینی حقائق اس سے تبدیل نہیں ہوں گے۔ نظامِ تعلیم میں دوئی ختم کیے بغیر دینی تعلیم کے نظام میں اصلاح کا کوئی امکان نہیں۔ ہم اگر یہ کام شعوری طور پر نہیں کریں گے تو وقت کا جبر ہمیں اس پر مجبور کر دے گا۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔