اردو زبان کا فرہاد،بے رخیوں سے فگار

ہم ایک بڑی قیمت چکاکر آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہوئے مگر آج تک اپنی ثقافت کے علم بردار بننے میں ناکا م ہیں۔مادیت پرستی کے جنون کا شکار کرکسی گم نام منزل کی جانب گامزن ہیں۔مغرب کی جانب سے ہم پر ہونے والی تہذیبی یلغار نے ہمیں گھائل کررکھا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی تہذیب کا جنازہ اپنے ہی کاندھوں پہ اٹھائے چل رہے ہیں۔ ہمارے اذہان پر روایاتِ غیر کے اثرات اس درجہ مرتسم ہو چکے ہیں کہ ہم فخر سے اپنی قومی زبان (اردو )سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔ دوسری طرف جب انگریزی کی بات آتی ہے تو ہر شخص بہ بانگِ دہل بڑے تفاخر سے کہتا ہے کہ میں انگریزی جانتا ہوں مگر اردو نہیں آتی۔ اگر کسی کو انگریزی نہ آتی ہو اور اس کا اظہار اسے بہ امرِ مجبوری کرنا پڑے تو ہچکچاتے ہوئے یہ بات تسلیم کرتا ہے۔دراصل یہ ہماری ذہنی غلامی کا کھلا ثبوت ہے ۔

اپنی زبان سے بیگانگی کے اس دور میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے حصے کی شمع جلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہی چنیدہ افراد میں سے ایک فرہاد احمد فگار ؔ ہیں۔فرہاد احمد فگارؔ جو کہ ایم اے اردو کرنے کے بعد ایم فل بھی کرچکے ہیں ۔حال ہی میں انھوں نے اپنے ایم فل کے مقالے بہ عنوان ’’آزادکشمیر کے منتخب غزل گو شعرا، تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ‘‘کا کامیابی سے دفاع کیا ہے ۔وہ زبان وبیان کی اصلاح کے بارے میں کافی حساس ہیں اور طلبہ کو ہر لمحہ اس بات کی ترغیب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ وہ غلط انگریزی بولنے کی بہ جائے درست اُردُو

بولیں اور اس میں اپنی اصلاح کو بدرجہ اتم یقینی بنائیں۔فرہاد احمد فگارؔ آزادکشمیر یونی ورسٹی شعبہ اردو میں جز وقتی استاد کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔راقم کے مشاہدے میں متعدد باریہ آیا کہ وہ جب بھی کسی طالب علم سے ملتے ہیں تو حال واحوال دریافت کرنے کے دوران ان کی اصلاح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مثلاً متعدد بار انھوں نے نشان دہی کی کہ جب کوئی دوسرے سے یوں حال دریافت کرتا ہے کہ ’’آپ ٹھیک ہیں‘‘یہ درست نہیں ہے کیوں کہ یہ سوال نہیں بنتا بہتر ہے اگر یوں پوچھا جائے کہ ’’آپ کیسے ہیں؟‘‘یہ درست بات ہے۔دورانِ تدریس بھی فرہاد احمد فگارؔ کا بڑا وقت

طَلَبہ کے تلفظ اور املا کی اصلاح میں گزرتا ہے۔

فرہاداحمدفگار

ہمارے معاشرے میں ایک رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے کہ اکثر اردو زبان کے اشعار جو کہ مختلف شعرا کے ہوتے ہیں اور انھیں کسی دوسرے سے منسوب کردیا جاتا ہے، بڑی اہم شخصیات بھی یہ غلطیاں کرتے ہوئے نظر آتی ہیں ۔اس چلن کو توڑنے کے لیے فرہاد احمد فگار ؔ ہمیشہ کمر بستہ نظر آتے ہیں اور جب بھی ان کی نظر سے کوئی ایسی چیز گزرتی ہے تو وہ فوری طور پر اس کی نشان دہی کرتے ہیں ۔ اردو کے نام ور غزل گو اورایک قومی روزنامے کے کالم نگار ظفرؔ اقبال جو کہ اکثر شعرا کے اشعار اپنے کالم کا حصہ بناتے رہتے ہیں متعدد مرتبہ انھوں نے بھی فرہاد احمد فگارؔ کی اس صلاحیت کااعتراف اپنے کالموں میں کیا۔ اکثر ظفر ؔ اقبال صاحب بھی ایسی اغلاط کے مرتکب ہوئے جس پر استادِ محترم فرہاد احمد فگارؔ نے ان کی توجیہ دلائی ور اپنے دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ جناب آپ نے یہ غلطی کی جس پر ظفر ؔ اقبال صاحب نے کمال اعلیٰ ظرفی سے اگلے روز اپنے کالم میں یہ بات تحریر کر دی کہ میں نے اس شعر کے شاعر کے حوالے سے غلطی کی تھی جس پر مظفرآباد سے ہمارے ایک کرم فرما جناب فرہاد احمد فگار نے نشان دہی کی ہے جب کہ مجھے تو آج تک اس بارے میں علم نہیں تھا اور پھر انھوں نے ساتھ ہی شکریہ بھی ادا کیا ۔اسی طرح ہمارے معاشرے میں اردو زبان میں کچھ الفاظ ایسے ہیں جو کہ کثرت سے غلط استعمال ہونے کی وجہ سے غلط العوام ہو چکے ہیں ۔استادِ محترم فرہاد احمد فگار نے ایک گوشوارہ بنا کر ان کے درست تلفظ اور استعمال پر ایک اصلاحی مضمون لکھا جس سے مجھ سمیت کئی محبانِ اردو کی اصلاح ممکن ہوئی۔

قارئینِ کرام! بلاشبہ ہم اپنے ہی رویوں کی وجہ سے اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔ اگر کوئی اصلاح کا علم تھامے ہوئے ہمارے معاشرے میں سامنے آتا ہے اس پر ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے کا فتویٰ لگادیا جاتا ہے ۔علاوہ ازیں اس کو مجنوں اور پاگل بھی کہا جاتا ہے اور مختلف طرح سے اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو کہ مضحکہ خیز ہے ۔بلاشبہ انگریزی زبان آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے مگراس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنی قومی زبان اردو کو فراموش کردیں اور اپنی ثقافت کو بھول جائیں۔

استادِ محترم فرہا د احمد فگارؔ جو کہ اپنی تہذیب وتمدن کے محافظ کے طور پر اپنا کردار ادا کررہے ہیں آج وہ بھی اس بات کا گلِہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہماری ثقافت کو ہم خود ہی پسِ پشت ڈال رہے ہیں ۔غیروں کی زبان جو کہ ہمارا وجود تک مٹانے کے درپے ہیں، اس کو دفتری زبان کا درجہ دے کر اپنی ثقافت کو مٹایا جارہا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے