کشمیراوریوم خودارادیت کا ڈھونگ

یہ آج سے ٹھیک اڑسٹھ سال قبل کی بات ہے کہ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر بحث چل رہی ہے مزے کی بات تو یہ تھی کہ اس بحث میں کشمیر کی نمائندگی کرنے والا ریاست جموں کشمیر کا کوئی باشندہ نہیں تھا۔ چند سال قبل معرض وجود میں انے والی قوموں کی یہ اسمبلی قوموں کے مسائل کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر حل کرنے کے لیے بنائی گئی تھی ۔ اسی اسمبلی میں ایک قوم کا مسئلہ پیش کیا جا رہا تھا مگر پیش کرنے والی وہ قوم خود نہیں بلکہ کوئی اور تھا۔

بات یوں تو کافی پرانی تھی مگر شروع 22 اکتوبر سے ہوئی تھی جب پاکستان کی جانب سے قائلیوں نے ریاست جموں کشمیر کی سرحد کو توڑ کر ایک خود مختار ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ راتوں رات برارکوٹ سے یہ حملہ آور مظفرآباد اور پھر اگلے دو دن میں بارہمولہ پہنچ چکے تھے جہاں سے ان کا اگلا قدم سرینگر پر حملہ کرنا تھا مگر اندرون خانہ ان کو بھیجنے والے آقا اس مسئلے میں الجھ گئے تھے کہ سرینگر میں مہاراجہ جموں کشمیر کا تاج کون اپنے سر سجائے گا؟

بحث جاری تھی کہ مہاراجہ ریاست جمون کشمیر نے ہندوستان سے مدد طلب کی، 27 اکتوبر کو ہندوستان کی فوجیں سرینگرہوائی اڈے پر اتر رہی تھیں۔ پانچ روز بعد یہ مسئلہ سہہ ملکی یعنی تین ملکوں کا بن گیا اس سے قبل یہ مسئلہ پاکستان اور ریاست جموں کشمیر کا تھا۔ سامراجی ذہن ریاست جموں کشمیر کو ہڑپ کرنا چاہ رہے تھے۔ یکم نومبر کو بھارت اس مسئلے کو لے کر سلامتی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔

چین جو کہ اس وقت نیا نیا ابھرا تھا اور اقوام متحدہ کا ممبر بنا تھا نے 18 مارچ 1948 کو ایک ڈرافٹ پیش کیا جس میں کہا گیا کہ اس مسئلے کو پرامن طریقے سے سلجھایا جائے پاکستان قبائلیوں کو اور اپنی فوجوں کو کشمیر سے نکالے ، دوسرے حصے میں ہندوستان سے کہا گیا کہ وہ حق خودارادیت کے لیے انتظامیہ بنائے جبکہ تیسرے مرحلے میں ریاست کی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملات حل کیے جائے۔ یوں 21 مارچ 1948 میں اقوام متحدہ نے

ایک قرارداد منظور کی اور پانچ رکنی کمیشن بنایا گیا جس میں طے پایا گیا کہ

پاکستان قبائلیوں کو اور اپنے تمام شہریوں کو ریاست جموں کشمیر سے فورا نکلانے کا پابند ہو گا اور یہ جنگ ختم کی جائے گی۔

ہندوستان اپنی اکثریت فوج ریاست جموں کشمیر سے نکالے گا اور صرف اتنی فوج ریاست میں رکھے گا جس سے انتظامی معاملات دیکھے جا سکیں اور ریاست میں مروجہ انتظامی اصولوں کے تحت انتظامی امور کی نگرانی کرے گا۔

ریاست کی تمام سرکردہ ریاستی جماعتیں مل کر ریاستی حکومت بنائیں گی۔ ہندوستان خوداختیاری انتظامیہ بنائے گا جس کو اقوام متحدہ منتخب کرے گی۔اس کے اختیار میں دونوں ملکوں ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات بھی ہوں گے حق رائے دہی غیر جانبدارانہ ہو گی جبکہ مہاجرین کو واپس بلایا جائے گا اور تمام سیاسی قیدیوں کر رہا کیا جائے گا

یہاں تک معاملات بہتر ہو رہے تھے دونوں ممالک نے سلامتی کونسل کی اس قرارداد کو قبول کر لیا ۔ جب کمیشن کراچی آیا تو اسے معلوم ہوا کہ مارچ کے بعد بھی اب تک کشمیر میں دونوں ملکوں کی فوج آپ میں لڑ رہی ہے اور ابھی تک پاکستان نے اپنی فوج کشمیر سے نہیں نکالی جو کہ قرارداد کی صریحا خلاف ورزی تھی۔ کمیشن نے دونوں ممالک ہندوستان اور پاکستان سے مذاکرات کیے اور 13 اگست 1947 کو ایک اور قرارداد پاس کی جس میں

اول سیز فائر لائن کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے مطابق دونوں ممالک کی فوجیں جہاں تھیں وہیں رک گئیں۔

دوم پاکستان کو کہا گیا کہ وہ اپنی فوجیں اور شہری ریاست جموں کشمیر سے نکالے۔

جبکہ تیسرے نمبر پر ریاست جموں کشمیر کے شہریوں کی رائے کے مطابق ان کے بارے مین فیصلہ کیا جائے گا جو کہ قراداد اول ہی کو عملی جامہ پہنانے کے بارے میں تھا

دسمبر 1948 کو اقوم متحدہ کمیشن برائے پاک و ہند واپس پہنچا۔ 23 اور 25 دسمبر کو اقوام متحدہ میں ہندوستان اور پاکستان نئی قرارداد کے لیے پہنچ چکے تھے اس دوران پاکستان نے ہندوستان کو خط لکھ کر کشمیر کے حق خود ارادیت کو الحاق تک محدود کرنے کی درخواست کی تھی جسے ہندوستان نے قبول کر لیا تھا یوں 5 جنوری 1949 نے پاکستان کی جانب سے وزیر خارجہ ظفر اللہ نے سلامتی کونسل سے درخواست کی کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور ہندوستان کا زمینی معاملی ہے اس بنا پر پہلی قرارداد میں ترمیم کر کے حق خودارادیت کے اختیار کو ختم کر کے اسے الحاق کے اختیار میں تبدیل کیا جائے۔ یوں سلامتی کونسل نے خود ارایت کو تبدیل کر کے الحاق تک محدود کر دیا اب یوم حق خودارادیت منانے کا مقصد اور پاکستان کی حق خودارایت حمایت دراصل الحاق کی حمایت ہے یہاں پاکستان کو کشمیر کا الحاق ہندوستان سے تو منظور ہے لیکن ریاست جموں کشمیر بحیثیت الگ ریاست قطعا قبول نہیں ہے اور پاکستان ماضی میں اپنی کشمیر پالیسیوں سے یہ ثابت بھی کر چکا ہے ۔

اب یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ ریاست جموں کشمیر کے حق میں کون ہے اور کون مخالف اگر پاکستان ریاست جموں کشمیر اور اس کے شہریوں کی حمایت کرتا ہے تو وہ ریاست جموں کشمیر میں تحریک آزادی کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کرے اور اپنے مفادات کو بالاتر رکھتے ہوئے آزاد کشمیر کو اصلی معنوں میں اس کے تمام حقوق اور اختیارات واپس کرے ورنہ پانچ فروری، پانچ جنوری اور دیگر ڈھونگ جو رچائے جا رہے ہیں سے موجودہ دور میں عوام کو مزید بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے