سانحہ قصوراورہمارامعاشرہ

قصورمیں معصوم زینب کے ساتھ پیش آنے والے والے دردناک واقعہ نے پوری قوم کوجھنجوڑکررکھ دیاہے اوربلاتفریق رنگ ونسل ہرفردمطالبہ کررہاہے کہ اس گھنائونے واقعے میں ملوث مجرم کوفوری اورقرارواقعی سزادی جائے ،بدقسمتی سے ہمارامعاشرہ ایک مجرمانہ معاش بنتاجارہاہے جہاں ہربرائی آئے روزتیزی سے پروان چڑھ رہی ہے، معاشرہ اسلامی اخلاقی تعلیمات سے ناآشنا ہے، اور جو تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں ان میں تربیت و تادیب کے آثار ہی نہیں پائے جاتے جس کی وجہ سے ہماری اخلاقی قدریں زوال پذیر ہو گئی ہیں ۔انسان کی عقلی قوت جب تک اس کے اخلاقی رویہ کے ما تحت استعمال ہوتی ہے ، تمام معاملات ٹھیک رہتے ہیں اور جب اس کے سفلی جذبے اس پر غلبہ پالیں تو نہ صرف اخلاقی وجود سے ملنے والی روحانی توانائی سے اسے محروم کردیتے ہیں ، بلکہ اس کی عقلی استعداد کو بھی آخر کار کند کر دیتے ہیں ، جس کے نتیجے میں معاشرہ زوال پذیر ہوجاتا ہے۔ یہ سب اخلاقی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ انسان کی اخلاقی حس اسے اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ کرتی ہے۔ اجتماعی زندگی کا اصل حسن احسان، ایثار،حسن معاملات اور قربانی سے جنم لیتا ہے۔ جب تک اخلاقی حس لوگوں میں باقی رہتی ہے وہ اپنے فرائض کو ذمہ داری اور خوش دلی سے ادا کرتے ہیں اور جب یہ حس مردہ اور وحشی ہو جاتی ہے تو پورے معاشرے کو مردہ اور وحشی کر دیتی ہے تو وہ لوگوں کے حقوق کو دیمک کی طرح کھانے لگتی ہے توایسے معاشرے میں ظلم و فساد عام ہوجاتا ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اخلاقی بگاڑ آج ہماری زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو چکا ہے۔ معاملہ عبادات کا ہو یا معاملات کا، حقوق و فرائض ہوں یا تعلیم و تربیت، امانت، دیانت، صدق، عدل ،ایفاے عہد، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اعلی اقدار کمزورپڑھ چکی ہیں ۔کرپشن،درندگی اور بدعنوانی ناسور کی طرح معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے۔ ظلم و ناانصافی کا دور دورہ ہے۔لوگ قومی درد اور اجتماعی خیر و شر کی فکر سے خالی اوراپنی ذات اور مفادات کے اسیر ہوچکے ہیں ۔ یہ اور ان جیسے دیگر منفی رویے ہمارے قومی مزاج میں داخل ہوچکے ہیں ۔یہ وہ صورت حال ہے جس پر ہر شخص کف افسوس ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ہم اخلاقی طور پر اس حد تک پست ہو چکے، اخلاقی بیماریو ں کامرض ہم میں اس حد تک سریت کر چکا ہے کہ ہم مرض جاننے کے باوجود اس کا یقین کرنے اور اپنی اصل اور ہمہ گیر بیماری کا اعتراف کرنے سے قاصر ہیں ۔

ہماری قوم انسان نما جانوروں اور وحشی درندوں کا ریوڑ بنتی چلی جا رہی ہے، جہاں چار سو انسانوں کے روپ میں خونخوار درندے پھرتے نظر آتے ہیں ۔ ملک میں بے عمل واعظ اور مبلغین کی تو بہتات ہے لیکن مصلح کوئی نہیں ۔ سیاستدان ہزاروں ہیں مگر لیڈر ایک بھی نہیں ، کوئی ایک بھی رہبر نہیں بلکہ سب رہزن ہیں ، سب دوسروں کے حقوق غصب کرنے کی فکرمیں ہیں ۔ ہر کوئی نظام بدلنے میں مگن ہے لیکن انسانوں کو بدلنے کا کوئی نہیں سوچ رہا۔ دوسروں کو بدل کر ہر کوئی انقلاب کا دعویدار ہے مگر کوئی خود کو بدلنے کیلئے تیار نہیں ۔جھوٹ ، خوشامد، دوغلے پن، دھوکے بازی، فراڈ ، حرام خوری، لالچ، خود غرضی اور بد عنوانی و کرپشن کا ایسا کونسا طریقہ ہے جو ہم نے ایجاد نہیں کیا؟ دھوکہ دہی اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی قسم ہے جو اس ملک میں زوروں پر نہیں ؟ تشدد، تعصب، عصبیت،درندگی اور انسان دشمنی کے ایسے کونسے مظاہرے ہیں جو ہمارے اس معاشرہ میں دیکھنے کو نہیں ملتے؟

آج کا معاشرہ قاتل کہلانے کے لائق ہے کیونکہ روز بروز بڑی بے دردی سے لوگ قتل ہو رہے ہیں مگر کسی کو کوئی احساس نہیں۔روز بروز کی بدعنوانیوں نے ہمارے احساسات کو ختم کر دیا ہے۔احساسات کی جو تھوڑی بہت رمق باقی ہے وہ بھی نہیں رہی یہاں دوسروں کے قتل پر افسردہ ہونے کی بجائے لوگ اپنے خونی رشتوں کو بھی قتل کر رہے ہیں۔اس سے زیادہ بے حسی بدعنوانی کیا ہو سکتی ہے ۔یہ معاشرہ اخلاق احساس سے بہت دور چلا گیا ہے۔

ہم اہل مغرب کی نقل اور ماڈرن ازم کے نام پر دن بدن معاشرتی اخلاقی پستی کا شکار ہو رہے ہیں ۔ موبائل، ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور کیبلز نیٹ ورک کے غلط استعمال سے ہماری جوان نسل اخلاقی طور پر تباہ اوردین سے بیزار ہو رہی ہے۔ ڈکومنٹری، سٹوری اور سیکس موویز کے بعد اگر کوئی کمی رہ گئی تھی واحیات گفتگو اور بد گفتار ی کی تو وہ پوری کرنے کیلئے سٹیج ڈراموں نے جنم لے لیا۔ انٹرنیٹ اور الیکٹرونک ریفریشمنٹ نے اسلامی معاشرہ کی اخلاقی پاکیزگی و پاکدامی کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔آج ہم نام کے مسلمان رہ گئے ہیں اور کردار کے ۔۔۔۔؟

۔تاریخ بتاتی ہے کہ جو قومیں تباہ ہو گئیں ان میں شیطانیت حد سے زیادہ تجاوز کر چکی تھی، ان کے افسانے ، قصے ، کہانیاں وغیرہ اس پر گواہ ہیں اور جو قومیں آج بڑی تیزی سے تباہیوں اور بربادیوں کی طرف بڑھ رہی ہیں اس کی وجہ بھی شیطانیت کے سوا اور کچھ نہیں ۔

جب معاشرہ انتہائی پستی کی گہرائی میں چلا جائے تو نرم روایہ اپنانے سے اس کو راہ راست پر نہیں لایا جا سکتا۔ انتہائی سخت قوانین اور ان پر باقاعدہ سختی سے عملدرآمد کروانے سے مسائل کا حل ممکن ہو گا۔ اسلامی معاشرہ کی اخلاقی پاکیزگی و پاکدامنی کو برقرار رکھنے کیلئے سخت سے سخت قوانین کا نفاذ ضروری ہے۔ جب تک انٹرنیٹ سمیت تمام بد اخلاقی پھیلانے والے نیٹ ورک کوکچلا نہ گیا معاشرہ کی اصلاح ناممکن ہے ، بلکہ معاشرہ مزید تباہی سے دوچار ہوتا چلا جائے گا۔اگر ہمیں معاشرہ کو مزید تباہی سے بچانا ہے تو اسلام کے پاکیزہ نظام کو اپنانا ہو گا۔ رسول اللہ ۖ کو رول ماڈل بنا کر سیرتِ رسولۖ کو اپنانا اور پھیلانا ہو گا۔ اور پوری قوم کو مغربی و بھارتی ثقافت و میڈیا کے بائیکاٹ کی مہم چلانا ہو گی۔

دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے ، جبکہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیرہوجاتی ہے۔ ہمیں قرآن کریم سے راہنمائی حاصل کرنا ہو گی۔ قرآن کریم کی تعلیمات اور اچھے اوصاف کو اپنانا اورسیرتِ رسول ۖ کو اپنے اوپر لاگو کرنا ہو گا۔ قرآن کریم و سنت کو پس پشت پھینک کر ہم کہیں فلاح نہیں پا سکتے ۔

جس دیس میں مائوں بہنوں کو
اغیار اٹھا کر لے جائیں
جس دیس سے قاتل غنڈوں کو
اشراف چھڑا کرلے جائیں
جس دیس کی کورٹ کچہری میں
انصاف ٹکوں پربکتا ہو
جس دیس کا منشی قاضی بھی
مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو
جس دیس کے چپے چپے پہ
پولیس کے ناکے ہوتے ہوں
جس دیس میں جان کے رکھوالے
خود جانیں لیں معصوموں کی
جس دیس میں حاکم ظالم ہوں
سسکیاں نہ سنیں مجبوروں کی
جس دیس کے عادل بہرے ہوں
آہیں نہ سنیں معصوموں کی
جس دیس کی گلیوں کوچوں میں
ہر سمت فحاشی پھیلی ہو
جس دیس میں بنتِ حواکی چادر بھی داغ سے میلی ہو
جس دیس میں آٹے چینی کا
بحران فلک تک جاپہنچے
جس دیس میں بجلی پانی کا
فقدان حلق تک جاپہنچے
جس دیس کے ہر چوراہے پر
دوچار بھکاری پھرتے ہوں
جس دیس میں غربت مائوں سے
بچے نیلام کراتی ہو
جس دیس میں دولت شرفا سے
ناجائز کام کراتی ہو
جس دیس کے عہدیداروں سے
عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں
جس دیس کے سادہ لوح انساں
وعدوں پہ ٹالے جاتے ہوں
اس دیس کے ہر اک لیڈر کو سولی پہ چڑھانا واجب ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے