قائد اعظم ثانی او ر نظر ثانی

واقعی نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملا خطرہ ایمان ہوتا ہے جبکہ نیم لیڈر؟نیم خواندہ نا اہل شریف نے ایک ایسی بات کی جسے کچھ لوگوں نے ’’خطرناک ‘‘قرار دیا ہے حالانکہ وہ صرف ’’افسوسناک‘‘ہے، خطرناک ہرگز نہیں۔ قائداعظمؒ نے پاکستان بنایا تھا جبکہ خود ساختہ قائد اعظم ثانی صاحب نے پاکستان دولخت کرنے والوں کے سرخیل اور سرغنہ شیخ مجیب الرحمن عرف بنگلہ بندھو کو ’’معصوم‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ باغی نہیں تھا اور ظاہر ہے اگر وہ باغی نہیں تھا تو ظاہر ہے غدار وطن بھی نہیں تھا اور اگر وہ نہ باغی تھا نہ غدار تو پھر کون تھا؟کیا وہ ’’فریڈم فائیٹر‘‘ تھا جس نے بنگالیوں کو مغربی پاکستانیوں بالخصوص پنجابیوں کے استحصال سے نجات دلا کر آزاد بنگلہ دیش بنانے کے لئے اندرا گاندھی کے ساتھ ساز باز کی؟اک تگڑا سکول آف تھاٹ ہے جس کے نزدیک بنگلہ دیش بننے کے پیچھے مغربی پاکستان کی بگڑی ہوئی اشرافیہ تھی جنہوں نے بنگالیوں کے ساتھ ناروا اور غیر منصفانہ سلوک روا رکھا جس کے رد عمل کے طور پر شیخ مجیب الرحمن جیسے غدار اور پھر بنگلہ دیش نے جنم لیا۔

اس بات کو جزوی طور پر تسلیم کر بھی لیا جائے تو میرا سوال بہت سادہ ہے کہ کیا آج کی سیاسی اشرافیہ پاکستان ، باقی ماندہ بچے کچھے پاکستان کے عوام کے ساتھ ناروااور غیر منصفانہ سلوک نہیں کر رہی؟ اور تو اور کیا پنجاب کے عوام کے ساتھ منصفانہ سلوک ہو رہا ہے؟ کیا یہاں تخت لاہور کے طعنے نہیں دئیے سنے جاتے؟ کیا یہ بات نہیں کی جاتی کہ خود پنجاب کے بیشتر وسائل لاہور میں جھونک دئیے جاتے ہیں؟کیا پنجاب کا عادی وزیراعلیٰ شہباز شریف خود بیسیوں باریہ ’’وارننگ ‘‘ نہیں دے چکا کہ اگر عوام کا استحصال بند نہ ہوا اور اگر حکمران اشرافیہ نے اپنے لچھن تبدیل نہ کئے تو خونی انقلاب سب کچھ بہا لے جائے گا اور کیا یہی عادی وزیر اعلیٰ بار بار ’’ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا‘‘ کی آواز نہیں لگا چکا؟کیا پنجاب میں بھوک، ننگ، غربت، جہالت، بے روزگاری نہیں؟

کتنی عورتیں زچگی میں مرتی اور سڑکوں پر بچوں کو جنم دیتی ہیں؟ کتنے مریض ہسپتالوں سے باہر بغیر علاج ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں؟کتنے فیصد لوگ گندا زہریلا پانی پینے پر مجبور ہیں؟ کتنے بچے سکول سے باہر چائلڈ لیبر کے چنگل میں پھنسے بچپن ہی میں بوڑھے ہو جاتے ہیں؟ کیا یہاں لوگ بھوک بے روزگاری کے سبب خود کشیاں نہیں کر رہے ہیں؟ کتنے فیصد عوام کو عدالتی انصاف نصیب ہوتا ہے؟ کیا ہر محکمہ میں راشی قصاب اور جلاد نہیں بیٹھے جو زندہ لوگوں کی بوٹیاں اتارتے ہیں؟ کیا اس ’’ظالم پنجاب‘‘ کے لاوارث عوام کا کوئی کام بغیر رشوت ممکن ہے؟ کیا یتیموں، بیوائوں اور بیرون ملک مزدوری کرتے لوگوں کی جائیدادوں پر ناجائز قبضے نہیں ہوتے؟

کیا قدم قدم پر مختلف مافیاز کا بھیانک گٹھ جوڑ حقیقت نہیں؟چند مخصوص خاندانوں کے علاوہ کوئی پڑھا لکھا اور یہاں تک کہ متمول پنجابی نوجوان قانون سازی کا خواب بھی دیکھ سکتا ہےوغیرہ وغیرہ ۔تو کیا یہ سب اکٹھے ہو کر شیخ مجیب الرحمن بن کر کس بنگلہ دیش کے حصول کی خاطر آج کی کسی اندرا گاندھی یا مودی کے ہاتھوں پر بیعت کر لیں تو ہزار لعنت ایسی سوچ پر کہ اصل طریقہ شر کے خلاف مسلسل جدوجہد کا ہے جو کبھی ناکام نہیں ہوتی۔دیکھ اے دیدہ تر یہ تو مرا چہرہ ہےسنگ کٹ جاتے ہیں پانی کی جہاں دھار گرےقطرہ قطرہ آنسو اور لہو بن کر ٹپکتے رہو تو پتھر میں بھی سوراخ ہو جاتا ہے۔ یہ تو پھر گلاسڑا غلیظ کھوکھلا نظام ہے جس کا انجام دور نہیں اور یاد رکھنے کی بات یہ کہ تب مشرقی مغربی پاکستان کے درمیان سینکڑوں میل پر پھیلا ہندوستان تھا اور پاکستان ابھی ایٹمی قوت نہ تھا ورنہ ۔۔۔ایسے میں قائد اعظم ثانی صاحب کو چاہئے اپنی سوچ پر نظر ثانی فرمائیں اور اب آخر پر ایک ذاتی تجربہ۔

1967 میں بطور انڈر گریجویٹ آنرز کے لئے نیو کیمپس جوائن کیا تو بہت سے بنگالی بھی ساتھ تھے۔ ان میں اے بی ایم فاروق، عبدالعلی ٰ دیوان اور حسین وغیرہ کے ساتھ میر ی خاصی گپ شپ تھی۔ شروع شروع سب شیر و شکر ہوئے لیکن چند ماہ کے اندر اندر ’’کبوتر با کبوتر، باز با باز‘‘ ہو گئے کیونکہ ہمارا رہن سہن ، کھاناپینا، کھانے پینے کا انداز، لباس، عادات، خصوصاً خرچ کرنے کی عادات اور میل جول کے انداز میں بھی قطعاً کوئی مماثلت یا مشابہت نہیں تھی، ابتدائی گرمجوشی بتدریج فقط’’ہیلو ہائے‘‘ والی رسمی لاتعلقی، نیم تعلقی میں تبدیل ہوئی تو اس کی بہت مضبوط ٹھوس وجوہات موجود تھیں۔تفصیل کے لئے شریف الحق والیم(بیراتم) جیسے سابق بنگالی فوجی اور دانش ور کی کتاب’’Bangla desh an untold story‘‘پڑھ لیں تو شاید افاقہ ہو (’’بیرا تم‘‘ شاید بنگلہ دیش میں ہمارے ’’نشان حیدر‘‘ جیسا اعزاز ہے)۔ کتاب خاصیضخیم اور انگریزی میں ہے، اگر کوئی پڑھا لکھا سپیچ رائٹر ہو تو اسے حکم فرمائیں ۔ سلیس اردو میں اس کی ’’سمری‘‘ بنا دے تاکہ آپ آئندہ کبھی ’’بنگلہ بندھو بونگی‘‘ نہ ماریں کیونکہ اس سے انشااللہ پاکستان کا تو کچھ نہ بگڑے گا، آپ کا سیاسی سوا ستیاناس ضرور ہو جائےگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے