مائی ڈیئر ڈاکٹر صفدر محمود صاحب

ڈاکٹر صفدر محمود کے ساتھ میری بہت خوشگوار یادیں وابستہ ہیں، وہ نوازشریف صاحب کے ادوار میں بہت اہم مناصب پر فائز رہے ہیں لیکن بنیادی طور پر وہ ایک اسکالر ہیں، چنانچہ ہر دور میں ان کا رابطہ لکھنے پڑھنے والے لوگوں کے ساتھ رہا، مرزا محمد منور مرحوم و مغفور ان کے علاوہ میرے لئے بھی بے حد محترم تھے چنانچہ ہمارے درمیان ایک رشتہ یہ بھی تھا، ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میری بہت ملاقاتیں رہی ہیں، مجھے یاد ہے ایک دفعہ ہم مری بھی اکٹھے گئے تھے اور وہاں سنجیدگی اور ظرافت کو یکجا کر کے بہت کچھ سیکھا بھی تھا اور موسم اور خوبصورت نظاروں کا لطف بھی لیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کسی زمانے میں قلمی نام سے کالم بھی لکھتے تھے اور ان کے ان کالموں کی کتاب کا فلیپ بھی میں نے لکھا تھا!

تاہم کچھ عرصے بلکہ کافی عرصے سے ڈاکٹر صاحب گوشہ نشین ہو گئے ہیں اور صرف ’’جنگ‘‘ میں اپنے لئے مخصوص گوشے میں نظر آتے ہیں، چنانچہ اب ان سے ملاقات وہیں ہوتی ہے، وہ میاں نوازشریف کے بہت ناقد ہیں، مگر اس معرکے میں وہ اکیلے نہیں، بے شمار بلکہ ان گنت لوگ ان کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں، بس مجھ ایسے دو چار ’’بوٹ پالشئے‘‘ ہیں، جو اپنے ان دوستوں سے اختلاف کرتے ہیں اور ماشاء اللہ اس کے عوض ایسی ایسی گالیاں سننے کو ملتی ہیں جن کا مطلب جاننے کے لئے کئی دفعہ فرہنگ آصفیہ کی مدد بھی لی۔ مگر اس حوالے سے یہ فرہنگ بھی دانتوں میں انگلی دابے نظر آئی۔ تاہم ڈاکٹر صاحب ایک شریف انسان ہیں۔ وہ کسی کو گندی گالی تو نہیں دیتے مگر جو کچھ کہنا ہو کہہ دیتے ہیں۔ انہوں نے نوازشریف کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور زیادہ تر ان کے لتّے ہی لئے۔

میں نے آج کا جنگ ہاتھ میں لیا تو ان کے کالم پر نظر پڑی۔ مجھے اس دفعہ ان کا انداز قدرے مختلف نظر آیا۔ انہیں اس بات پر اعتراض تھا کہ انہوں نے اپنی حالیہ تقریر میں یہ کیوں کہا کہ مجھے مزید زخم نہ لگائو، میں باغی ہو جائوں گا۔ مجیب الرحمان محب وطن تھا مگر اسے غدار بنا دیا گیا۔ آخری جملہ شاید یہ نہیں تھا مگر ڈاکٹر صاحب کے کالم سے مفہوم یہی سمجھ آیا۔ ڈاکٹر صاحب نوازشریف صاحب کے دور میں سیکرٹری اطلاعات بھی رہے ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب پوری تقریر میں سے کوئی جملہ الگ سے دیکھا جائے تو اس کے معنی بدل جاتے ہیں، محترم نوازشریف کے بارے میں یہ بات سوچی بھی نہیں جاسکتی کہ ان کی گفتگو سے یا ان کے کسی عمل سے پاکستان سے ان کے غیر معمولی عشق پر انگلی اٹھائی جاسکتی ہے۔ میرے اس بیان کی تصدیق خود ڈاکٹر صاحب کے اس کالم میں موجود ہے۔ انہوں نے میاں صاحب کو مخاطب کر کے لکھا ہے ’’میں آپ کو عرصہ دراز سے جانتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ آپ پاکستان سے شدید محبت کرتے ہیں، آپ میں خدمت کا جذبہ بھی موجزن ہے، مجھے وہ شامیں یاد ہیں جو ہم نے کرپشن کے خاتمے کے لئے اقدامات پر غور کرتے گزار دیں، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ کے دل میں خوف خدا کا نور بھی موجود ہے!‘‘

اب ظاہر ہے یہ سب کچھ جاننے کے باوجود میاں صاحب کی پاکستان سے محبت کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی، مگر ڈاکٹر صاحب کا خیال ہے کہ میاں صاحب کے مشیروں نے انہیں پاکستان کی نظریاتی اساس سے دور کردیا ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب سے اتفاق کرتا ہوں بلکہ اس میں یہ اضافہ کرتا ہوں کہ صرف نوازشریف صاحب کو نہیں، مجھ سمیت ان سب ’’اسلام پسندوں‘‘ کو اس نظریاتی اساس سے دور کردیا ہے، جس نے ضیاء الحق کے زمانے سے ملائیت کی شکل اختیار کرلی تھی اور جس کے خوفناک نتائج آج ہم سب کے سامنے ہیں۔

آپ احسن اقبال کو جانتے ہیں، عرفان صدیقی کو جانتے ہیں، خواجہ سعد رفیق کو جانتے ہیں اور میرے سمیت بے شمار ان دوستوں کو جانتے ہیں جو آج بھی پاکستان کی نظریاتی اساس پر یقین رکھتے ہیں مگر اس کے جو معنی بتائے جاتے ہیں اور اس کی جو عملی شکلیں سامنے آئی ہیں، یہ سب اس سے باغی ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی ’’نظریاتی اساس‘‘ کے نام پر پاکستان کو تیار کیا گیا، اس کے معنی اتنے محدود کردیئے گئے اور جنرل ضیاء الحق کے دور سےلے کر آج تک ایک ذہن ایسا وجود میں آیا ہے جس کے نتیجے میں اقلیتیںخود کو غیر محفوظ سمجھنے لگ گئی ہیں، اسی ’’نظریاتی اساس‘‘ کو غلط معنی پہنا کر طالبان اور فرقہ پرست تنظیمیں وجود میں آئیں، اسی ’’نظریاتی اساس‘‘ کے حامیوں نے قوم کو ’’پین دی سری‘‘ سے متعارف کرایا۔ رواداری، ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور پاکستان کو بسائےامن بنانے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور صورت حال یہ ہے کہ آج ہم دنیا میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔

تاریخ پاکستان کی تین شخصیات ایسی ہیں، جن کا میں عاشق ہوں۔ ان میں پہلے دو نام قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال ہیں اور تیسرا نام مولانا حسرت موہانی کا ہے۔ قائداعظم کے اقوال اور اعمال میں مجھے پاکستان کی وہ ’’نظریاتی اساس‘‘ دکھا دی جائے جس کا ذکر ہم ایک عرصے سے سنتے چلے آرہے ہیں۔ ان سے زیادہ لبرل رہنما ہماری پوری تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ میںان کے حوالے سے بہت سی باتیں ’’گول‘‘ کررہا ہوں کہ ایک چیز ’’خوف فساد خلق‘‘ بھی ہے جو آج سوچنے سمجھنے والے طبقے کو گونگا بنائے ہوئے ہے۔ اسی طرح علامہ اقبال کو لے لیجئے، پاکستان کی اصل نظریاتی اساس تلاش کرنا ہو تو وہ ان کے خطبات میں آپ کو ملے گی جس میں وہ پارلیمنٹ کو اجتہاد تک کا حق بھی دیتے ہیں اور جہاں تک مولانا حسرت موہانی کا تعلق ہے وہ خود کو کھلم کھلا سوشلسٹ کہتے تھے اور گیارہویں کی نیاز بھی دیتے تھے۔ قائداعظم کو حسرت موہانی اتنے عزیز تھے کہ ان کی کڑوی سے کڑوی بات بھی پوری توجہ اور تحمل سے سنتے تھے۔

میں اس بحث کو طول نہیں دینا چاہتا کہ ایک تو ڈاکٹر صفدر محمود کی رنجش کا احساس ہے اور دوسرے ڈاکٹر صاحب ایک عالم فاضل آدمی ہیں اور ان کے مقابلے میں میں بالکل ان پڑھ ہوں۔ بس ان سے درخواست ہے کہ نوازشریف ایسے پاکستان کے عاشق یا کسی دوسرے رہنما کی بات سے انہیں اختلاف ہو تو ان کی نیت پر شک نہ کریں، نیت پر شک میرے سمیت ہم سب کا وتیرہ بن چکا ہے، جو پاکستان کو نفرتوں کا گڑھ بناتا چلا جارہا ہے اور ہماری جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے۔ ہمارے ہمسائے میں مودی کا انڈیا ہے جو ہمارے وجود کے در پے ہے۔ یہ ایک گھٹیا دشمن ہے مگر دنیا کے سامنے خود کو ایک نیک پاک روادار اور سیکولر ملک کے طور پر پیش کررہا ہے۔ ہم سے یہ چالاکی عیاری اور مکاری تو ممکن نہیں، مگر ہمیں اپنی سوچ اور اپنے کردار پر نظرثانی کر کے دنیا کو پاکستان کی اصلی نظریاتی اساس کی روح سے آشنا ضرور کرانا چاہئے۔ اسلام اور پاکستان سے محبت کا یہی تقاضا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے