Beginning of the End

کیا جنوری، خاتمے کی شروعات کا مہینہ ہے؟ کیا واقعی ن لیگ 15فروری تک پنجاب حکومت بچا لے گی اور اگلا الیکشن بھی اس کا ہو گا؟ کیا بلوچستان کے عدم استحکام کا لازمی نتیجہ پنجاب حکومت ختم کرنے پر منتج ہو گا؟ کیا اپوزیشن کا طاہر القادری کی حمایت کا مقصد ہر صورت پنجاب میں ن لیگی حکومت کا 15فروری سے پہلے خاتمہ ہے؟ کیونکہ سینیٹ الیکشن ہو گئے تو ن لیگ کی سیاسی پوزیشن مزید مضبوط ہو جائے گی؟ کیا بیرونی دبائو ن لیگ کے لئے ریلیف کا سبب ہو گا یا نہیں؟ مریدکے اور بہاولپور میں ڈرون حملوں کا واقعی خطرہ ہے یا یہ صرف افواہیں ہیں؟

رسہ کشی کا مقابلہ جاری ہے میاں جمہوری اور چوہدری شمشیر کی ٹیمیں آمنے سامنے ہیں دونوں طرف سے طاقت آزمائی جاری ہے۔ چند دن میں فیصلے ہونے والے ہیں کہ کونسی ٹیم کو برتری حاصل ہوتی ہے۔ چوہدری شمشیر نے 70سال سے آج تک ہونے والے میچوں میں ہمیشہ میاں جمہوری کی ٹیم کو شکست دی ہے کیا اس بار بھی وہ تاریخ دہرائی جائے گی یا اس بار پانسہ پلٹے گا؟

رسہ کشی کا کھیل دلچسپ ہے ہر رائونڈ پانچ منٹ کا ہوتا ہے اسی پانچ منٹ میں ایک ٹیم کو دوسری ٹیم پر اپنی طاقت ثابت کرنی پڑتی ہے۔ 26فٹ لمبی رسی کے عین درمیان میں سرخ رنگ کا نشان ہوتا ہے۔ اس نشان سے 13فٹ دور رسی کے دونوں سروں پر سفید رنگ کے نشان ہوتے ہیں۔ ہر ٹیم 8ممبران پر مشتمل ہوتی ہے، دونوں ٹیموں کے آخری اور عام طور پر سب سے وزنی کھلاڑی بینڈی (Bendy)کہلاتے ہیں۔ میاں جمہوری کی ٹیم میں جوش، انتقام اور ردعمل کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ میاں جمہوری ہر رائونڈ کے شروع ہونے سے پہلے ایک پُرجوش تقریر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دفعہ جمہوری ٹیم جیت کر رہے گی۔

دوسری طرف چوہدری شمشیر کی ٹیم کو اپنے بازوئے شمشیر زن پر ناز ہے اور اسے اعتماد ہے کہ جب بھی اس نے پوری طاقت لگائی مخالف ٹیم کو اڑا کر رکھ دے گا۔ رسہ کشی کے آخری کھلاڑی بینڈی نے رسی اپنے اردگرد باندھی ہوتی ہے میاں جمہوری بینڈی بن کر بالکل زمین کے ساتھ لگے ہوئے مخالف ٹیم کے زور کو برداشت کر رہے ہیں۔ چوہدری شمشیر کے حامی فائول فائول پکار رہے ہیں کہتے ہیں اس طرح کھلاڑی زمین سے لگے تو فائول ہوتا ہے۔ اداروں کے خلاف اس طرح کے دائو چلانا فائول ہے۔ دوسری طرف جمہوری میاں کی ٹیم کے حامی کبھی کوٹ مومن اور کبھی کہیں اور عوامی تماشا لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس بار جیت ان کی ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ فائول سے بچتے ہوئے زور لگا رہے ہیں۔

رسہ کشی کے اس کھیل کا نتیجہ سب کو معلوم ہے۔ سب کو علم ہے کہ چوہدری شمشیر سے جیتنا مشکل ہے اس لئے سب مہر بلب ہیں۔ اندازہ کیا جا رہا ہے کہ جنوری کے مہینے سے لے کر 10فروری تک کے عرصے میں ایسے واضح آثار آنے شروع ہو جائیں گے جس سے لگے گا کہ ن لیگ کو دوبارہ اقتدار میں آنے نہیں دیا جائے گا۔ اس صورتحال میں فوراً دیہی علاقوں کے کئی آزمودہ انتخابی گھوڑے (Electables)فارورڈ بلاک کی طرف مائل ہوں گے۔ سینیٹ کے الیکشن کو ملتوی کرنے کی کوشش کی جائے گی، وفاق اور پنجاب کی حکومتوں کو چلتا کرنے کے لئے دبائو ڈالا جائے گا اور یوں ایک نگران کابینہ بنے گی جو ’’صادق اور امین‘‘ لوگوں پر مشتمل نئی پارلیمان بنانے کے لئے موزوں امیدواروں کی تلاش شروع کر دے گی۔ چوہدری شمشیر کی ٹیم کے کچھ ممبران کا خیال ہے کہ 2018ء میں ہر صورت الیکشن ہوں گے مگر رسہ کشی کے وزنی کھلاڑی بینڈی کہتے ہیں کہ نواز شریف کو اس لئے تھوڑا نکالا گیا ہے کہ اس کے بھائی کو اقتدار میں لایا جائے۔ الیکشن تین سال بعد ہوں گے۔ اس وزنی کھلاڑی کا کہنا ہے کہ نگران کابینہ لمبی چلے گی شریف خاندان کے کسی بھی فرد کو وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ نہیں بننے دیا جائے گا۔ عمران خان کو ریزرو کھلاڑی کے طور پر محفوظ رکھا جائے گا مگر کوشش یہ کی جائے گی کہ بالکل Freshلیڈر شپ سامنے لائی جائے۔

میاں جمہوری کی ٹیم کا خیال ہے کہ اس وقت دنیا کی صورتحال ایسی ہے کہ چوہدری شمشیر نے آئین سے ہٹ کر کوئی نظام چلانے کی کوشش کی تو اس پر دبائو بڑھ جائے گا۔ میاں جمہوری کے وزنی کھلاڑی بینڈی کہتے ہیں کہ چوہدری شمشیر کی ٹیم نہ تو فارورڈ بلاک بنا سکی، نہ پارٹی صدارت سے ہٹا سکی اور نہ یہ تاثر دے سکی کہ شریفوں کا ساتھ دینے والے کی خیر نہیں۔ میاں جمہوری بیرون ملک دوستوں سے کہتے ہیں کہ اداروں کو کہیں کہ وہ مداخلت نہ کریں بالخصوص چوہدری شمشیر ننگی تلوار لے کر باہر نہ نکلے۔ میاں جمہوری نے برادر ملک کو لاہور میں اہلسنت اور بریلوی مکتب فکر کے دھرنوں سے بھی آگاہ کیا ہو گا اور قدرتی طور پر اس ملک نے اپنے مخالف فقہ کی سرگرمیوں پر شریفوں سے اظہار یکجہتی کیا ہو گا۔ ان ملاقاتوں کے بعد میاں جمہوری کا خیال تھا کہ یہ دھرنے دبائو کے لئے استعمال ہوں گے حکومت گرانا مشکل ہو گا مگر چوہدری شمشیر کے تلوار باز حامی تو کہتے ہیں کہ مڈ فروری سے پہلے ہی یہ حکومتی بساط لپٹ جائے گی۔

چوہدری شمشیر کے لئے بساط لپیٹنا تو چٹکی بجانے کے مترادف ہے اصل بات اس کے بعد شروع ہوتی ہے اتنے بڑے ملک کی حکمرانی آسان نہیں۔ رسہ کشی کا مقابلہ اور ہے اور ملک چلانا اور۔ بیرونی دبائو ہے، ڈرون حملوں کا خطرہ ہے، بیرونی امداد کی بندش بھی ہو سکتی ہے اور مزید دبائو کے لئے بھارت اور افغانستان بھی کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں ایسے میں توقع تھی کہ رسہ کشی کا مقابلہ ملتوی کر کے پوری قوم کو کبڈی کے لئے تیار کیا جائے گا مگر ایسا لگتا ہے کہ بیرونی خطرات سے چوہدری شمشیر کی حکمت عملی پر فرق نہیں پڑا وہ اپنے پرانے رسہ کشی کے میچ میں زور لگا رہا ہے۔ Bendyکو حکم ہے کہ یہ نظام بھی بیرونی آقائوں کا حامی ہے اس لئے اسے فارغ کرنا ضروری ہے حالانکہ ایسے ہنگامی مواقع پر پوری قوم کو ایک صفحے پر لایا جاتا ہے اور آپس کی رنجشیں بھلا دی جاتی ہیں مگر یہاں تو ہر صورت رسہ کشی ہو گی، شمشیر میچ جیتے گا اور جمہوری میاں کو شکست دینے کے لئے فضا بنائی جائے گی۔

جنوری، فروری میں خاتمے کی تیاری ہے مگر سوال یہی ہے کہ چار مارشل لائوں اور بے شمار تجربوں کے باوجود گملوں میں لگائی جانے والی ’’جمہوری پنیری‘‘ کبھی پھل پھول نہ سکی۔ عمران خان، نواز شریف اور شہباز شریف کے لئے تو ویسے بھی صرف آئندہ الیکشن واحد چانس ہے یہ جیتیں یا ہاریں اس کے پانچ سال بعد ہونے والے الیکشن میں یہ سارے لیڈر بہتّرے اور تہتّرے ہوں گے اور اس بات کا امکان کم ہے کہ یہ سارے 2023ء میں بھی وزارت عظمیٰ کے امیدوار قائم رہ سکیں۔ گویا بالکل نئے لوگ، نئے چہرے اور نئی پارٹیاں جنم لیں گی۔ ن لیگ کو گرا لیا گیا اور بیرونی دبائو کو روک لیا گیا تو پھر سمجھئے گا کہ چوہدری شمشیر اپنے منصوبوں کے عین مطابق 1985ء کی لاٹ کو فارغ کر کے ایک نئی محب وطن لاٹ لانے والا ہے۔ (اللہ خیر ہی کرے).

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے