’حساس ترین صوبے پر کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بنانا سب کیلئے لمحہ فکریہ‘

لاہور: سابق وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں تعجب کا اظہار کیا گیا ہے کہ بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا فیصلہ کب، کہاں اور کیسے کیا گیا، چند سو ووٹ لینے والے شخص کو ایک کروڑ سے زائد آبادی کے صوبے پر مسلط کرنا جمہوری عمل کی نفی ہے۔

لاہور میں مسلم لیگ (ن)، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کا اعلی سطح کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد نواز شریف، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر، وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، پرویز رشید اور مریم اورنگزیب سمیت دیگر شریک ہوئے۔

اجلاس میں بلوچستان میں لائی گئی تحریک عدم اعتماد پر تفصیلی گفتگو کی گئی، اجلاس کے شرکاء نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ ہمارے علم میں لائے بغیر کسی جواز کے بغیر کیا گیا تھا۔

اجلاس کے شرکا نے تعجب کا اظہار کیا کہ ارکان نے کبھی بھی اس حوالے سے کسی بھی سطح پر اس ضمن کی نشاندہی نہیں کی اور وہ ارکان اس سوال کا جواب دینے سے بھی قاصر ہیں کہ الیکشن سے چار ماہ پہلے اس امر کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔

اجلاس کے شرکا نے تعجب کا اظہار کیا کہ بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا فیصلہ کب، کہاں اور کیسے کیا گیا، چند سو ووٹ لینے والے شخص کو ایک کروڑ سے زائد آبادی کے صوبے پر مسلط کرنا جمہوری عمل کی نفی ہے جبکہ ملک کے حساس ترین صوبے پر کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بیٹھا دینا سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

اجلاس کے شرکا نے کہا کہ اس طرح کے عمل سے نہ صرف بلوچستان کے لوگوں کے بنیادی جمہوری حقوق سلب ہوئے ہیں بلکہ اس طرح کے اقدام آئین میں دیئے گئے عوام کے حقِ حکمرانی کی توہین کے مترادف ہیں۔

اجلاس میں تینوں سیاسی جماعتوں کی قیادت نے عہد کیا کہ محلاتی سازشوں کے ذریعے تبدیلی لانے کا نہ صرف مقابلہ کیا جائے گا بلکہ عوامی شعور کو بیدار کر کے اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی جائے گی۔

شرکا نے کہا کہ جس طرح ووٹ کے تقدس کو بار بارمجروح کیا جاتا ہے اور عوام کے فیصلوں کے اوپر چند لوگوں کے فیصلے مسلط کیے جاتے ہیں، اس کو کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان جہاں سیاسی استحکام کی ضرورت سب سے زیادہ تھی وہاں بلوچستان کی جمہوری قیادت کی سیاسی بصیرت اور مفاہمتی عمل کے ذریعے اسے حاصل کر لیا گیا تھا اور بلوچستان کو قومی دھارے میں شامل کر لیا گیا تھا، اسے رات و رات محلاتی سازشوں کی نذر کر دیا گیا۔

اجلاس کے شرکا کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کے غیر جمہوری اقدام کو بلوچستان کے عوام اپنی توہین تصور کرتے ہیں، جمہوری قوتیں اس طرح کے غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدام کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گی۔

خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے پاکستان مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے رکنِ صوبائی اسمبلی عبدالقدوس بزنجو واضح اکثریت کے ساتھ بلوچستان کے نئے وزیرِ اعلیٰ منتخب کیے گئے جبکہ سرفراز بگٹی سمیت 14 رکنی نئی کابینہ نے بھی حلف اٹھایا۔

اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ حمید درانی کی سربراہی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے اجلاس منعقد ہوا جس میں مسلم لیگ (ق) کے امیدوار میر عبدالقدوس بزنجو اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے امید وار آغا لیاقت کے درمیان مقابلہ ہوا۔

واضح رہے کہ بلوچستان اسمبلی میں کُل 65 نشستیں ہیں جبکہ وزارتِ اعلیٰ کے منصب کے لیے امیدوار کو 35 اراکین کے ووٹ درکار ہوتے ہیں تاہم میر عبدالقدوس بزنجو نے 41 اور سید لیاقت علی آغا نے 13 ووٹ حاصل کیے۔

یاد رہے کہ 2013 سے موجودہ حکومت کے دوران میر عبدالقدوس بزنجو بلوچستان کے تیسرے وزیرِ اعلیٰ ہیں جبکہ ان سے قبل نواب ثناء اللہ زہری اور عبدالمالک بلوچ بھی وزارتِ اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔

نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے بعد 14 رکنی نئی کابینہ کا بھی انتخاب عمل لایا گیا جن میں سابق وزیرداخلہ سرفراز بگٹی بھی شامل ہیں۔

میرعبدالقدوس بزنجو کی کابینہ میں میر سرفراز احمد بگٹی، طاہر محمود خان، سردار سرفراز خان ڈومکی، نواب چنگیز خان مری، راحت جمالی، عبالمجید ابڑو، میر عاصم کرد گیلو، عامر رند، غلام دستگیر بادینی، محمد اکبر عسکانی، شیخ جعفر خان مندوخیل، سید محمد رضا، منظور احمد کاکڑ اور پرنس احمد علی شامل ہوگئے ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ رواں ماہ وزیراعلی بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف اسمبلی سیکریٹریٹ میں مسلم لیگ (ق) کے رکن اسمبلی اور سابق ڈپٹی اسپیکر عبدالقدوس بزنجو نے تحریکِ عدم اعتماد جمع کرائی تھی۔

سابق وزیرِاعلیٰ بلوچستان نے اپنے خلاف بلوچستان اسمبلی میں جمع ہونے والی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے نواز شریف سے مدد مانگی تھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے