انصاف کہاں ہے

یہ سلطان راہی کی ایک فلم کا سین ہے ۔ آدھی رات کو سلطان راہی عدالت کی دیوار پھلانگ کر اندر کودتے ہیں ۔ حفاظتی سپاہی فورا ان کے سامنے آتا ہے۔ اور بندوق تان کر اندر کودنے کا سبب پوچھتا ہے۔

سلطان راہی کہتے ہیں ۔اوئے تھانیدارا۔انصاف لینڑ آیا ہاں (تھانیدار ۔ انصاف لینے آیا ہوں)۔ سپاہی کہتا ہے ۔ بھائی عدالت دن میں کھلتی ہے نہ کہ رات کو ۔ سلطان راہی جواب دیتا ہے ۔ اے کی۔ ظلم چوی کنٹے تے انصاف بارہ کنٹے (یعنی ظلم چوبیس گھنٹے اور انصاف بارہ گھنٹے)

جی ہاں ۔ یہ انصاف کی دکان بارہ گھنٹے کے لئے کھلتی ہے ۔ کاٹن کے سپید سوٹ پہنے یا کوٹ پینٹ کے ساتھ نکٹائی لگائے گاہک اس دکان میں اپنا سودا خریدنے اور بیچنے کو جمع ہوتے ہیں ۔ اور پھٹے ہوئے جوتے پہنے غریب سہما سہما پیچھے پیچھے چلتا ہے ۔

انصاف کی کرسی پر بیٹھا دکاندار بھی گرد سے اٹی لاکھوں زیر التوا فائلوں کو کھولنے کی بجائے ان فائلوں کو کھولنا زیادہ پسند کرتا ہے ۔ جو کاٹن کے کپڑوں کی طرح سفید ہوں۔ انصاف کے اسی خوشنما چہرے نے گزشتہ دو مہینے سے میرے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔

دسمبر میں آرمی پبلک اسکول کی برسی گزرتی ہے ۔ قلم اٹھاتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کہ ان معصوموں کی یاد میں کچھ لکھوں جو ایک ان دیکھی جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ لیکن جب بیٹے کی یادوں میں زنجیر وں میں جھکڑی ماں کو دیکھتا ہوں تو حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے ۔وہ ماں سوال کرتی ہے انصاف کہاں ہے؟

پھر یکم جنوری آ تا ہے اور سوشل میڈیا پر ہر پروفائل اور ہر موضوع میں مشال خان نظر آنے لگتا ہے ۔( ہیرالڈ کے سروے کے مطابق لوگوں نے ان کو پرسن آف دی ایئر منتخب کیا) مشال خان کی سوچتی ،سمجھتی اوربولتی تصویر دیکھ کر انگلیاں کمپیوٹر پر ٹک ٹک کرنے سے انکار کر دیتی ہیں۔مشال کی تصویر سوال کرتی ہے ۔ انصاف کہاں ہے ؟

ابھی وہ زخم کھروچ ہی رہا ہوتا ہوں کہ شاہزیب قتل میں گرفتار ہونے والے شاہ رخ جتوئی کا عدالتی نظام پر ہنستا ہوا چہرہ نظر آتا ہے ۔ جہاں وہ عدالت کے بار وکٹری کا نشان بناتے ہوئے پروٹوکول کی گاڑیوں کے ہجوم میں روانہ ہو جاتا ہے۔ شاہ زیب سوال کرتا ہے ۔ انصاف کہاں ہے؟

پھر سوشل میڈیا پر صحافی طہ صدیقی کی تصویر نظر آتی ہے جن کو دارالخلافہ میں مسلح آدمی روک کر تشدد کرتے ہیں ۔ اور وہ انصاف کے لئے صاحبان اختیار کے پاس دوڑا دوڑا پھرتا ہے ۔ طہ کی متشدد تصویر پوچھتی ہے ۔ انصاف کہاں ہے؟

پھر کراچی میں پروفیسر حسن عارف کی لاش کی تصویر نظر آتی ہے ۔ جس میں ان کے چہرے پر ایک سوال نظر آتا ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ۔ انصاف کہاں ہے ؟

لاہور میں شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے دلاور عباس کو 20 کے قریب لڑکے تشدد کر کے قتل کر دیتے ہیں ۔اس کی بے بس لاش چیخ چیخ کر سوال کرتی ہے ۔ انصاف کہاں ہے؟

وہ درد ختم نہیں ہوتا کہ سوشل میڈیا پر قصور کی ننھی پری کی تصویر وائرل ہوتی ہے ۔ پورا ملک اس ننھی پری کو انصاف دلانے کھڑا ہوتا ہے ۔ لیکن ننھی پری کی تشدد زدہ لاش انصاف کے کوڑے پر سوالیہ نشان بن کر کھڑی ہے ۔زینب کے قاتل نہیں پکڑے جاتے ۔ انصاف کہاں ہے؟

وہاں مردان میں جنسی زیادتی کا نشانہ بن کر قتل ہونے والی چار سالہ معصوم عاصمہ کی لاش بھی معاشرے اور انصاف کے منہ پر تھپڑ مارتی ہے – اور پوچھتی ہے انصاف کہاں ہے؟

نقیب اللہ محسودکو 13 جنوری کو کراچی میں قانون کے رکھوالے قتل کر دیتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر اس کی ہنستی ، کھیلتی تصویریں سوال کرتی ہیں ۔ انصاف کہاں ہے؟

سیالکوٹ کا خرم شہزاد وکٹر اپنی بیٹیوں کے ساتھ زیادتی کے کیس کا انصاف مانگنے لاہور آتا ہے اور تین مہینے پریس کلب کے باہر احتجاج کرنے کے باوجود کسی کو اس کی خبر نہیں ہوتی۔ ان ننھی بچیوں کی معصومیت سوال کرتی ہے ۔ انصاف کہاں ہے ؟

کراچی میں ہی نوجوان انتظار احمد کی کار کا پیچھا کیا جاتا ہے اور انصاف کے رکھوالے ہی اس پر گولیاں چلا دیتے ہیں ۔ انتظار کی ماں بیٹے کا لاشہ سامنے رکھے پوچھتی ہے ۔ انصاف کہاں ہے ؟

قانون بنانے والے ، قانون کی تشریح کرنے والوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔ قانون کی تشریح کرنے والے ، قانون بنانے والوں کو قصوروار قرار دیتے ہیں۔ اور قانون کے رکھوالے اپنے ہی شہریوں پر گولیاں چلاتے ہیں.

انصاف پانامہ کی گلیوں میں گھومتا ہے ۔ اور مے فئیر کے فلیٹوں میں سو تا ہے -سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلتا ہے ۔ انصاف کہاں ہے ۔ انصاف کہاں ہے –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے