آئے روز ہم سنتے آتے ہیں کہ والدین نے پیسوں کے لیے بچوں کو بیچ ڈالا… کسمپرسی غربت و افلاس کے مارے والدین اس حد تک مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان کو اپنے ہی جگر گوشوں کو بیچنا پڑ جاتا ہے … کچھ لوگ ایسا ذمہ داری سے بھاگنے کا بہانہ تو کہیں زندگی کی بھاگ دوڑ اور مہنگائی زدہ اس معاشرے میں ایسے انسانوں کا وجود ہونا ایک حقیقت ہے…
جس معاشرے میں زینب جیسی ننھی کلی کے قاتل ریپسٹ اور اغوا کار موجود ہوں وہاں کچھ خود ساختہ والدین ایسے بھی ہیں جو کہ انسانیت سوز واقعہ پر بھی اپنی اداکاری کا ایسا مظاہرہ کرتے ہیں کہ دیکھنے والے بھی دنگ رہ جائیں. اپنی ممتا کو اسکرین پر بیچنا کوئی ان سے سیکھے… جی ہاں بات ہو رہی ہے ان اینکرز کی جنہوں نے زینب واقعہ کو اپنی شہرت کے لیے خوب استعمال کیا. ٹی وی اسکرینز رونے کی اداکاری کرتے یہ اینکرز اس واقعپر سستی شہرت حاصل کرنے میں ایک دوسری پر ثبقت لے جانے میں خوب داؤ پیچ لڑاتے نظر آرہے ہیں. اور اس پر کچھ مالکان ایسے بھی ہیں جو کہ ان روتے دھوتے چہروں کو بار بار دکھا کر اس دلخراش واقعہ سے بھی اپنی کمائی اور رینٹنگ بڑھانے کے چکروں میں ہوتے ہیں…
زینب ہو یا کوئی بھی بچہ ظلم زیادتی کسی صورت قابل برداشت نہیں. لیکن میرا ان اینکرز اور میڈیا مالکانز سے صرف یہ سوال ہیکہ کتنے ہی سیٹھوں کے گھروں میں چائلڈ لیبر سے کام لیا جا رہا ہے. ٹی وی اسکرینز پر میک اپ زدہ چہروں کے پیچھے چھپے ان اینکرز سے سوال ہیکہ کتنے ہی بچے ان کی تشدد کے زد میں آچکے ہیں… گزشتہ دنوں لاہور ہی میں ایک بڑے چینل کی اینکر کے گھر کمسن ملازمہ کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ سب کے سامنے ہے… کتنے میڈیا ہاؤسز نے اس پر واویلا مچایا اور کتنے اینکرز نے اس بچی پر پیش آنے والے رویہ پر رونے دھونے کا ناٹک رچایا… اس وقت کوئی نہیں بولا کسی کی ممتا نہیں جاگی کیوں کہ ہم سب کہیں نہ کہیں اس درندگی کے مرتکب ہوتے رہے ہیں… جہاں ہمارا مفاد مشترکہ ہو وہاں ہم ظلم دیکھ کر خاموشی کیوں اختیار کر لیتے ہیں ؟؟؟؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ زینب اس قوم کی بیٹی تھی. اس سمیت جتنی بچیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ انسان تصور نہیں کر سکتا مگر میڈیا مالکان اور ٹی وی اسکرینز پر بیٹھے اینکرز نے جس طرح اس واقعے پر سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے وہ بھی انتہائی افسوس ناک اور ہمارے ملک میں میڈیا انڈسٹری کی ناپختگی کی مثال ہے. پیک اپ زدہ چہروں میں چھپے یہ خود ساختہ والدین خدارا اس قوم کے جذبات کے ساتھ مت کھیلیں ٹی وی اسکرین صحافت کے لیے تو صحافت کریں خواد ساختہ والدین برائے فروخت کا بورڈ نہ بنائیں