منو بھائی، ہمیں جنگل میں چھوڑ گئے

زاہد ڈار کی ایک پرانی نظم کا ٹکڑا ہے… جب بارش برسی، لوگ بہت ہی روئے / ہم مندر میں جا سوئے۔ منو بھائی کو یاد کرتے ہوئے مجھے یہ مصرع یاد آیا۔ جنگل کی اداسی لکھنے والا جنگل میں چلا گیا ہے اور جنگل مزید اداس ہو گیا ہے۔ صحافت کی پیشہ ورانہ حدود میں رہتے ہوئے ایک شہری کی آواز بلند کرنا، پڑھنے والوں کو جینے کا ڈھنگ سکھانا، ناانصافی کی بلا کم و کاست نشاندہی کرنا؛ یہ تھے ہمارے منو بھائی۔ ساٹھ برس پر پھیلی منو بھائی کی صحافت کا دو لفظی مآل، احساس ذمہ داری اور محبت تھا۔ ہماری نسل نے اخبار پڑھنا شروع کیا تو منو بھائی امروز میں ’گریبان‘ لکھتے تھے۔ بائیں ہاتھ پر پشتے کی جانب احمد ندیم قاسمی کا جہازی کالم اور نیچے نذیر احمد خان کسی مستقل موضوع پر قاموسی معلومات دیتے تھے۔ اخبار کی گلی ابھی بازار نہیں ہوئی تھی۔ منو بھائی کی نثر رواں اور دل میں اتر جانے والی تھی۔

عربی فارسی کے پہاڑ لڑھکاتے تھے اور نہ تنقید میں کف در دہان ہوتے تھے۔ منو بھائی ماؤں کی آنکھ سے معاملات دیکھتے تھے۔ اور ماؤں جیسے دھیرج سبھاؤ سے لکھتے چلے جاتے تھے۔ انہیں کسی عام سے لفظ میں ہم عصر تناظر کا بارود بھرنا آتا تھا۔ درفنطنی کا لفظ ستر کی دہائی میں رائج ہوا۔ اس لفظ پر کراچی سے سلیم احمد اور لاہور سے نذیر ناجی بھی دعویٰ کرتے تھے، لیکن منو بھائی نے اس لفظ کے اردگرد ایسا جادو باندھا کہ ہمارے عہد کی ہر درفنطنی مجسم ہو گئی۔ ضیاالحق کے نام کو ایک تشدید کے ساتھ تانیث کا روپ دیا اور نوے کی دہائی میں پاکستان کی سیاسی قطبیت پر دھار رکھ دی۔ منو بھائی اپنی لکنت سے بھی کام لینا جانتے تھے۔

1981ء میں منو بھائی نے روزنامہ جنگ میں لکھنا شروع کیا۔ ان کے کالم کے مستقل لوگو پر بہت بات ہوتی تھی۔ ایک دریدہ قمیص، اوندھی ہنڈیا اور کوے کا تلازمہ سمجھنا کچھ مشکل تھا۔ منو بھائی سے پوچھا تو فرمایا، کھیتوں میں پرندے اڑانے کے لیے تم وہ جو ڈھانچہ سا کھڑا کرتے ہو اسے کیا کہتے ہیں؟ عرض کی بڈاوا۔ فرمایا میرے کالم کے لوگو میں بڈاوا ہی رکھا ہے۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ صحافی کا کام اس مخلوق کو کھیت سے دور رکھنا ہے جو فصل کو نقصان پہنچاتی ہے۔

اور اس بڈاوے پر میں نے جو قمیص ٹانکی ہے وہ میرا اپنا گریبان ہے۔ یہ قمیص تار تار ہے کیوں کہ اس ہنڈیا کے عین اوپر کوا آ کے بیٹھ گیا ہے۔ مقصود یہ بتانا ہے کہ صحافت کا خوف اٹھ گیا ہے۔ کوا اب بغیر کسی جھجک کے، عین بڈاوے پر آ کے بیٹھتا ہے۔ کبھی کسی کروڑ پتی کے فون کی صورت، کبھی کیبل آپریٹر ایسوسی ایشن کی پریس کانفرنس کی شکل میں؛ کوے کو اگر زیادہ غصہ آ جائے تو صحافت کی جھونپڑ پٹی اٹھا کر کھیت کے کنارے پھینک آتا ہے۔

منو بھائی کا ملال بجا تھا کہ صحافت فصل کی دیکھ بھال کرنے کا ایک پرامن بندوبست ہے۔ اگر معاشرے میں جوابدہی کے دوسرے ادارے اپنا کام نہ کریں تو صحافت خلا میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتی۔ تین ہفتے کی مار پکار کے بعد قصور کی سات سالہ زینب کا مبینہ قاتل گرفتار ہو گیا۔ اس موضوع میں کئی سخن گسترانہ پہلو آئے۔ ادھر کراچی والے راؤ انوار کی چیرہ دستیوں کا تذکرہ بیان طلب ہے۔ چارسدہ میں طالب علم نے استاد کو قتل کر ڈالا۔ یونانی المیے میں باپ بیٹے کو قتل کرتا تھا۔ طالب علم کے ہاتھوں استاد کا قتل تو یونانیوں کو بھی نہیں سوجھا۔ یہ عذاب ہم پر اس لئے ٹوٹا کہ استاد سے بھی زیادہ جاننے کے دعویدار پیدا ہو گئے ہیں اور یہ کہ ہم اجتماعی بزدلی میں ایسے بالشتیوں کی جعل سازی کو ہوا دیتے ہیں۔

قصور میں کم سن بچی سے زیادتی کا سانحہ انتہائی اذیت ناک ہے۔ تاہم ماننا چاہیے کہ اس قسم کے واقعات ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔ ہم جاگتے تب ہیں جب کسی واقعہ پہ میڈیا میں واویلا ہو یا لوگ سڑکوں پر نکل آئیں۔ پھر ہم طرح طرح کی تاویلات لے کر اپنے تعصبات کی ڈفلی بجاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یکے بہ دیگرے سات بچیاں قتل ہوئیں۔ کیا مقامی پولیس نیند میں تھی؟ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ملزم کی گرفتاری کا اعلان کرنے بیٹھے تو اس پر تالیاں پیٹنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ملزم کی گرفتاری ریاست کا فرض ہے، کیا وزیر اعلیٰ کی خود پسندی مظلوم باپ کے احساسات سے زیادہ قیمتی ہے؟

چوک میں لٹکانے کی خواہش بتاتی ہے کہ ہم جرم، سزا اور انصاف کے بنیادی زاویے سمجھنے کی بجائے قرطبہ کا قاضی بنے پھرتے ہیں۔ قلعہ سیف اللہ کے ایک مولانا صاحب سال بھر پہلے تک ڈی این اے کی گواہی کو ناقابل قبول قرار دیتے تھے۔ اب ان کی خبر لینی چاہیے۔ معاملہ ذاتی عناد کا نہیں، جو لوگ جدید معاشرت اور قانون کی حرکیات کو نہیں سمجھتے انہیں ان معاملات میں حکم لگانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ اگر پولیس تفتیش کر رہی ہو ، تو چوبیس گھنٹے یا بہتر گھنٹے کی چتاؤنی کا مطلب کیا ہوتا ہے؟

ہمارے طرز احساس میں ایک امیر محمد کالا باغ چھپا بیٹھا ہے جس کی ذاتی ذہانت انتظامی اہلیت اور باجبروت شخصیت کے بل پر ملک چلایا جا سکتا ہے۔ قصور میں گرفتار ہونے والے شخص نے جنات اور دیگر غیرمرئی عناصر کا ذکر کیا ہے۔ یہ معاملہ بھی صاف ہونا چاہئے۔ زیادہ ضروری یہ ہے کہ پاکستان کے جسد اجتماعی سے امیر کالا باغ کا بھوت نکالا جائے۔ امیر محمد کالا باغ ایوب آمریت کا کارندہ تھا۔ اس نے ہماری جمہوری ثقافت بگاڑی، اظہار کی آزادی کا گلا گھونٹا، وہ تعلیم دشمن تھا، اس نے پولیس کا نظام تباہ کیا۔ ہم میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو دفتر میں قائد اعظم کی تصویر سجاتے ہیں اور دل میں کالاباغ بننے کی آرزو لیے پھرتے ہیں۔

کراچی ملیر کے ایس پی راؤ انوار کو عہدے سے برطرف کر کے مقدمہ درج کر لیا گیا۔ کوئی تعجب کہ راؤ انوار دہائی دے رہے ہیں کہ میں نے چار افراد مارے ہیں، صرف نقیب اللہ محسود بے گناہ نکلا۔ پوچھنا چاہیے کہ باقی تین افراد کس اختیار کے تحت مارے؟ پولیس مقابلوں کی روایت آئین میں شہریوں کو دئیے گئے تحفظ کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ایسے ہر واقعہ کی ایک جرم کے طور پر پوری تحقیق ہونی چاہئے۔ پاکستان کے ہر تھانے میں آئین کی شق دس الف کا متن آویزاں کرنا چاہئے جو شہریوں کو شفاف سماعت کی ضمانت دیتا ہے۔

اگر ریاست کے اہلکاروں کو شہریوں کی زندگی پر بلاروک ٹوک اختیار ہی دینا ہے تو عدالتیں سجانے کی کیا ضرورت ہے۔ اور اگر عدالت کی ضرورت نہیں تو پھر پارلیمنٹ بھی غیر ضروری ہو جائے گی۔ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کے شہری کسی کی رعایا نہیں ہیں۔ ان کے جان و مال پر کسی سردار عبدالوکیل، ہلاکو خان، ذوالفقار چیمہ، چوہدری اسلم اور رائو انوار کو اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ اس غلطی ہی سے کراچی میں تشدد کی ثقافت نے جنم لیا اور ملک بھر میں وہ ثقافت پیدا کی جسے تھانہ کلچر کہا جاتا ہے۔

اگر قصور کا واقعہ انفرادی تھا تو کراچی میں ریاست سے بدترین جرم سرزد ہوا۔ چارسدہ شب قدر میں پرنسپل کا قتل تو ہمارے قومی گریبان پر ہے۔ تین ہفتے تک اسلام آباد کے دروازے ہر بیٹھا ہجوم جو اشتعال انگیزی کر رہا تھا اس سے یہی نتیجہ برآمد ہونا ناگزیر تھا۔ تاثر پذیر عمر کا ایک نوجوان فی گھنٹہ درجنوں گالیوں کی گردان سن کر اور ریاست کو بے بس ہوتے دیکھ کر واپس اپنے شہر گیا ہے۔ اپنی خود راستی کے زعم میں اب وہ نہتے استاد کا اختیار کیسے مانے گا؟ اس نے تو یہ سیکھ لیا کہ مذہب کے نام پر ریاست کے ہر منصب کو للکارا جا سکتا ہے۔ ہر غلط بات منوائی جا سکتی ہے۔ فہیم اشرف 1917ء کا کمیونسٹ کمیسار اور 1979 کا پاسداران بن کر چارسدہ واپس گیا ہے۔ دیکھنا چاہئے کہ فیض آباد دھرنے سے نفرت، تشدد اور جہالت کی یہ فصل کس مقدار میں کون کون سے قصبے میں گئی ہے۔ منو بھائی تو اب ہمارے درمیان رہے نہیں کہ ہماری ہر درفنطنی کی نشاندہی کر سکیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے