بھارت۔آسیان سمٹ، گریٹ گیم کی دستک

1999میں جب جنگ کرگل عروج پر تھی، نصب شب سے چند لمحے قبل ٹیلی پرنٹر پر پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کی ایک خبر آئی ، کہ خلیج بنگال میں بھارتی بحریہ اپنی مشقیں ادھوری چھوڑ کر اپنے سبھی جنگی جہاز بحیرہ عرب میں لاکر پاکستانی سمندری حدود کی طرف کوچ کر رہی ہے۔یہ بھی خبر تھی کی یہ قافلہ جنوبی صوبہ کیرل کی بندرگاہ کوچی پہنچ گیا ہے۔ دارلحکومت دہلی کے قلب میں پارلیمنٹ ہاؤس اور پریس کلب آف انڈیا سے کچھ فاصلے پر انڈین نیوز پیپر سوسائٹی کی بلڈنگ میں دہلی سے باہر شائع ہونے والے تقریباً 100کے قریب اخبارات کے دفاتر اور نیوز بیوروز ہیں۔جنگ کا زمانہ تھا۔ کئی سرکاری اداروں سے روزانہ بریفنگ ہوتی تھی۔ کئی میڈیا ہاوسز کے نمائندے کرگل سے شام کو سیٹلائٹ فونز کے ذریعے بھی خبریں بھیجتے تھے۔ اسلئے تازہ ترین صورتحال سے باخبر رہنے کیلئے اس بلڈنگ میں کام کرنے والے صحافی آفس سے کوچ کرنے سے قبل ایک دوسرے کے ساتھ اطلاعات کا تبادلہ کرتے تھے۔چونکہ ایسے حالات میں بھارت میں میڈیا اسٹیبلشمنٹ کے ایک عضو کی طرح کام کرتا ہے، اسلئے متفقہ فیصلہ ہوا کہ اس خبر کو نظر انداز کیا جائے۔ یہ اندازہ لگایا گیا، کہ پی ٹی آئی کے کوچی کے نامہ نگار سے چوک ہوئی ہے۔ اس نے یا توبحریہ کی نقل و حرکت اور آپریشن کو افشا کرنے کا کام کیا ہے یا اسکو کسی نے بیوقوف بنایا ہے۔ خبر کے صحیح ہونے کی صورت میں خدشہ تھا، کہ اسکے شائع ہونے سے پاکستان کو قبل از وقت اس آپریشن کا پتہ چل جائیگا اور وہ اپنے دفاع کیلئے پیش بندی کریگا۔ایڈیٹروں کو مطلع کیا گیا کہ خبر کو دبانا ہے۔ مگر اگلے روز انڈین ایکسپریس میں یہ خبر نمایا ں طور پر بصورت اینکر چھپی تھی ۔ اندازہ تھا کہ شاید انڈین ایکسپریس یا پی ٹی آئی پر اب سرکار ی رازداری قانون کے تحت کارروائی ہوگی۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

اس واقعہ کے کئی برس بعد انڈین ایکسپریس کے اسوقت کے ایڈیٹر شیکھر گپتا نے راز کھولا۔ انہوں نے بھی خبر کو روکنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مگر آفس سے نکلنے سے قبل ان کو خیال آیا کہ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دفتر کو مطلع کرنا چا ہئے۔ واجپائی کے پرنسپل سیکرٹری اور قومی سلامتی مشیر برجیش مشرا نے ساری صورت حال سننے کے بعد جواب دیا کہ ’’خبر پی ٹی آئی سے آئی ہے۔ آپ ذرا اسکو نمایا ں طور پر صفحہ اول پر شائع کروادیجئے ۔‘‘ شیکھر نے کہا کہ’’ یہ آپ کیا کہہ رہیں ہیں۔ اس سے تو پاکستان چوکس ہوجائیگا اور آپریشن کا مقصد ہی فوت ہوگا۔ کیا آپ وہاں بینڈ باجہ بجا کر جانا چاہتے ہیں۔‘‘ مشرا نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ’’آپ ذرا خبر کو نمایاں شائع کیجئے، سفارتی داؤ پیچ میڈیا کی سمجھ میں نہیں آسکتے ہیں۔پی ٹی آئی کی ہی تو خبر ہے۔ آپ کی معتبریت پر تو کوئی آنچ نہیں آئیگی۔‘‘ یہ واقعی ایک سفارتی اسٹنٹ تھا جس کا مقصد پاکستان اور بین الاقوامی برادری پر فائیر بندی لاگو کرنے کیلئے دباؤ ڈالنا اور پیغام دینا تھا کہ طوالت کی صورت میں نہ صرف جنگ کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے، بلکہ سمندری حدود میں دیگر ملکوں کے مفادات اور آمد و رفت پر بھی اثر پڑ سکتا ہے ۔ تقریباًاسی وقت امریکی صدر بل کلنٹن نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو واشنگٹن طلب کیا ہواتھا تاکہ جنگ بندی کرائی جائے۔بحریہ کے افسران اکثر یہاںیہ دعوی کرتے ہیں،کہ گو انہوں نے کرگل جنگ میں فوج اور فضائیہ کی طرح براہ راست حصہ نہیں لیا، مگر اسکو ختم کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

خیر اس تمہید کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ نہ صرف جنگ بلکہ کسی بھی ملک کی اقتصادی شہ رگ کو برقرار رکھنے کیلئے ایک طاقتوربحریہ اور سمندری گذرگاہوں پر کنٹرول کا ہونا لازمی ہے۔بحر الکاہل کے آبنائے ملاکا سے آبنائے تائیوان تک جس کو ساؤتھ چیئنا سمندر بھی کہتے ہیں ، میں چین کے جارحانہ رویہ اور اسکے تین ملین مربع کلومیٹر سے زائد رقبہ پر دعوے نے بھارت ،امریکہ ، جاپان، آسٹریلیا اور انکے اتحادیوں کی نیند حرام کرکے رکھی ہوئی ہے۔ بھارت کے ایک سابق قومی سلامتی مشیر اور زیرک سفارت کار شیو شنکر مینن نے پچھلے سال مجھے ایک انٹرویو میں بتایا کہ1991 میں جب بھارت میں اقتصادی اصلاحات کا آغاز ہوا تو غیرملکی تجارت ملک کی مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا محض 14فی صد تھی، جو اب 51فیصد ہوچکی ہے۔اور اسکا بیشتر حصہ ساوتھ چیئنا سمندر سے ہی ہوکر گذرتا ہے۔ اسلئے سمندری گذرگاہوں میں آزادانہ آمد ر رفت کا ایشو نہ صرف بھارت کی اقتصادیات بلکہ اسکی قومی سلامتی سے بھی اب جڑ گیا ہے۔ اسمیں رکاوٹ کا مطلب ملک میں انارکی پیدا کروانا اور شہ رگ پر وار کرنے جیسا ہے، جسے ہر صورت میں روکنا ہوگا۔ کسی ایسی صورت حال کی پیش بندی کیلئے کئی برسو ں سے بھارت چین کو قابو میں رکھنے اور اسکو گھیرنے کیلئے اس خطے میں ایک وسیع تر اتحاد ترتیب دینے کے درپے ہے۔ بھارت، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل ایک چار فریقی اتحاد پہلے ہی تشکیل ہوچکا ہے۔ ابھی بھارت نے افریقہ سے متصل سے شلز Seychellesکے ساتھ اسکے آزمپشن Assomption جزیرہ پر بحریہ متعین کرنے کے ایک معاہدہ پر دستخط کئے ۔ مگر اسے بھی آگے بڑھتے ہوئے چین کو مزید حد میں رکھنے کی غرض سے وزیر اعظم نریندر مودی نے یوم جمہوریہ کے موقعہ پر Assocaition of South East Asian Nations یعنی آسیان کے دس سربراہان مملکت کی پذیرائی کی اور ان کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ بھارت ان کیلئے اسٹریجیٹک پارٹنر کے بطور متبادل کردار نبھا سکتا ہے۔ گو بتایا جاتا ہے کہ کمبوڈیا اور لاؤس نے بند دروازوں کے پیچھے مذاکرات میں ساوتھ چیئنا سمندر اور چین کا نام مشترکہ اعلامیہ میں آنے نہیں دیا۔ مگر سمندری گذرگاہوں میں آزادانہ آمد و رفت، بین الاقوامی قوانین کی پاسداری وغیرہ جیسے الفاظ کا استعمال کرکے چین کو ہی ایک واضع پیغام دیا گیا کہ جس طرح اس نے میانمار، نیپال ، سری لنکا، مالدیپ اور پاکستان کو اتحادی بناکر ایک طرح سے بھارت کے ارد گردایک حصار قائم کیا ہوا ہے، اسی طرح بھارت بھی منگولیا، جاپان، کوریا، آسٹریلیا، امریکہ کے ساتھ ساتھ جنوب مشرقی ممالک کے ساتھ اتحاد بناکر بیجنگ کے ار د گرد String of Pearls بن رہا ہے۔

اس سمت کو کور کرتے ہوئے جب میں نے ان ممالک سے آئے ایک سینئر عہدیدار سے پوچھا کہ وہ بھارت کے مفادات کی کس حد تک آبیاری کر سکتے ہیں؟ تو اسکا برجستہ جواب تھا کہ’’ یہ سچ ہے کہ چین کی ابھرتی ہوئی طاقت اور اسکی سمت سے وہ بھی خائف ہیں، مگر چین بہر صورت ایک اقتصادی طاقت ہے جس کی ان ممالک کواشد ضرورت بھی ہے ۔ جہاں ضرورت ہوتی ہے، مفادات ازخود وابستہ ہوجاتے ہیں۔‘‘ بھارت کے ایک سابق سیکرٹری خارجہ شیام سرن کے بقول بھارت اور آسیان کے درمیان سالانہ تجارت 71بلین ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔ جو ہر سا ل بتدریج کم ہوتی جارہی ہے۔ 2012میں یہ 80بلین ڈالر تھی۔ جبکہ چین کے ساتھ ان ممالک کی سالانہ تجارت 500بلین ڈالر سے تجاوز کرتی ہے۔ 2016میں بھارت نے ان ممالک میں ایک بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جبکہ چینی کمپنیوں نے اسی سال 10بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ اب بھارت ان ممالک کو Regional Comprehensive Economic Partnership یعنی آر سی ای پی مذاکرات کو طول دینے یا اس کو معاہدہ کی شکل دینے سے باز رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گو کہ اعلانیہ طور پر بھارت اس معاہدہ میں شامل ہونے پر آمادہ ہے، مگر اس کو خدشہ ہے کہ چونکہ اس پارٹنرشپ میں چین کو کلیدی اہمیت حاصل ہے، اسکو بھی اپنی مارکیٹ پورے طور پر چینی مصنوعات کیلئے کھولنے پڑیں گی۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ TPPسے الگ ہونے کے بعد ایشیا ، آسٹریلیا کے ممالک کیلئے RCEPایک اہم متوقعہ تجارتی اتحاد اور اشتراک بن گیا ہے۔ جس سے ان کے اقتصادی مفادات وابستہ ہیں۔

مشہور سیاح ابن بطوطہ کی عجائب الاسفار کے ترجمہ کار مولوی محمد حسین تمہید میں جب اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی ممالک میں تہذیب کے تنزل کا کیا باعث بنا ؟ تو خاصی بحث کے بعدنتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ سمندری گذرگاہوں کا کنٹرول چھن جانے سے یہ ممالک بے دست و پا ہوگئے۔ اسلامی ممالک کی تہذیب کی کنجی تجارت اور ان سمندری گذرگاہوں کے کنٹرول میں پوشیدہ تھی۔ عرب و ایران کی تاریخ گواہ ہے کہ قرطبہ سے لیکر چین کے مشرقی ساحل تک سمندر اور خشکی کی راہداریوں کو اسلامی قافلے اور جہاز اپنی جولان گاہ سمجھتے تھے۔الغرض چودہویں صدی تک مشرق و مغرب کی تجارت مسلمانوں کے قبضہ میں تھی۔ ترکوں کا عروج بھی ان کے امیر البحر خیر الدین باربروسہ اور اسکے جان نشین ترگوت کے سر ہے، جس نے اس سلطنت کو ایک مضبوط بحریہ عطا کرکے ایک عالمی طاقت بنوایا۔ واسکوڈی گاما اور کولمبس نے جب یورپ سے امریکہ اور ہندوستان کی طرف جانے والے بحری راستوں کو ڈھونڈ نکالا تو انہوں نے آہستہ آہستہ اسلامی ممالک کو اس مشرق و مغرب کی تجارت سے محروم ہی نہیں کیا، بلکہ تہذیب کی کنجی کو بھی ان کے ہاتھ سے نکال دیا جو ان کے افلاس، علوم کے زوال اور پست ہمتی کا سبب بنا۔ جو واقعہ اسلامی دنیا کے تنزل کا باعث ہوا، وہی یورپ کی تہذیب اور ترقی کا باعث بنا۔ اگر نہر سویز چار سو برس قبل اسوقت بنتی، جب ان ممالک کے پاس دنیاوی طاقت کی کمی نہ تھی، تو وہ فوراً اس تجارت اور راہداری کا رخ موڑ کر پھر اپنے حق میں ہموار کرسکتے تھے۔مگر اب کئی صدیوں کے بعد تاریخ نیا موڑ لے رہی ہے۔ چین ۔پاکستان اقتصادی راہگذر سے دنیا میں ایک نئی طاقت کا ظہور ہو رہا ہے۔ گوادر کے ذریعے چینی بحری بیڑے کی بحیرہ عرب اور خلیج فارس تک رسائی اور بحرلکاہل میں راہداری پر اسکا کنٹرول ایک نئی گریٹ گیم کا آغاز اور مغربی طاقتوں کے تنزل کا واضح اعلان ہے ۔مسلم دنیا میں طاقت اور لیڈرشپ کا محوربھی پاکستان اور سعودی عرب سے چھن کر ترکی اور ایران کے پاس پہنچ گیا ہے۔ مصلحت اسی بات میں ہے، کہ لیڈرشپ چھننے کے غم میں آنسو بہانے اور ان نئی مسلم طاقتوں کی راہ میں روڑے اٹکانے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی اور مدد کا سامان مہیا کروایا جائے۔ اگر مسلم ممالک کے حکمران حکمت عملی سے کام لیکر صحیح راہ متعین کریں،تو شاید تاریخ کے اوراق میں گم ہوئی تہذیبوں کو پھر ابھرنے کا موقع ملے گا۔

بشکریہ : روزنامہ 92 نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے