انسانی حقوق کی علمبردار خاتون اور عالم دین حضرات۔۔۔!!!

ہر انسان اپنی زندگی میں جو جدوجہد کرتا ہے وہ کسی نہ کسی کو اپنا آئیڈیل بناتا ہے۔ویسے تو والدین سب کیلئے عظیم اور قابل احترام ہوتے ہیں مگر میرے لیئے میری فیلڈ میں بھی آئیڈیل میرے بزرگوں ہیں، کیونکہ جو قلم میرے ہاتھ میں ہے وہ انہی کی عنائت ہے،مظلوم طبقے کے حق میں وہ بلا خوف اور نتائج کی پروا کئےبغیر کوششیں کرتے عرضیاں اور درخواستیں لکھواتے ان میں سے بڑی تعداد میں نے بھی ان کی ہدایات پر تحریر کی ہیں،وہی میری لکھنے کی ابتداء تھی۔وہ جب کسی مظلوم کی مدد کے لیے ہر طرف سے راستے بند پاتے تو پھر رخ کرتے عاصمہ جہانگیر کی طرف،مجھے پورے واقعات تو یاد نہیں البتہ ہمارے علاقے میں ایک دفعہ کسی بڑے خاندان کےاوباش نوجوان کی غریب کی بیٹی سے زیادتی اور واقعہ کو خاموش کرنے کیلئےپولیس و انتظامیہ سے ملی بھگت کے معاملے پر انہوں نے مجھ سے ایک خط عاصمہ جہانگیر کے نام  لکھوایا اور اس بچی کے والد کو اپنی جیب سے لاہور کا کرایہ خرچہ دے کر عاصمہ جہانگیر کا پتہ بتایا۔آج تو چینلز،میڈیا، سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس اور ہزار ذرائع ہیں آواز اٹھانے کے اس زمانے میں ہر طرف ڈکٹیٹر تھے مظلوم کو صرف صبر سمجھایا جاتا تھا، مگر جب وہ مظلوم باپ عاصمہ جہانگیر کے پاس پہنچا پھر کیا تھا کہ واقعہ پنجاب کا ایک اہم ایشو بن گیا اور دھرتی کے ظالموں کو عبرت کا نشان بنایا گیا پھر نہیں مجھے یاد کہ کوئی ایسی تاریخ ہمارے علاقے میں دہرائی گئی ہو۔۔مجھے صرف پڑھنے اور سننے کی حد تک ہی نہیں بلکہ عملی طور پر دیکھنےکا تجربہ ہے کہ انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیر  ایک نڈر، بہادر اور اصول پسند شخصیت اور بے سہاروں اور ظالموں کے ستائے ہوئے مظلوموں کی آوازتھیں۔ایک وکیل کیس لڑنے سے پہلے ہمیشہ فیس کی فکر کرتا ہے مگر انہوں نے مظلوم کی مدد کے لیے ہمیشہ اپنے آپ کو پیش کیا اورکسی غرض کو کھبی خاطر میں نہیں لائیں۔وقت کےفرعون اور آمروں کو ڈٹ کر للکارنے،انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف بے جگری سے جدوجہد کرنے اور سچ کو بے دھڑک بیان کرنے کی روایت قائم کرنے والی اس خاتون نے ظلم و زیادتی کے خلاف بے دھڑک اور بے تعصب کام کیا۔نتائج کی پرواہ کیے بغیر عاصمہ جہانگیرنے ہمیشہ حق اور سچ کا ساتھ دیا۔
غالبا نوے کی دہائی کے اوائل میں والد گرامی کے پاس مختلف مکاتب فکر کے علماء کا آنا جانا لگا رہتا تھا،خصوصا جمعیت علماء اسلام کے پیر سید عارف حسین شاہ صاحب دوہٹہ عظمت والےاور مولانا منظور احمد چنیوٹی تو مجھے یاد ہیں غالبادونوں رکن صوبائی اسمبلی تھے۔ والد صاحب کو میں نے کھبی لگی لپٹی کرتے نہیں سنا ہمیشہ سیدھی بات کرتے تھے مولانا منظور چنیوٹی ملنے آئے ہوئے تھے والد صاحب نے عاصمہ جہانگیر کی مظلوم بچی کی مدد بارے واقعہ بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ اس خاتون کے بارے میں تو معلوم پڑتا ہے کہ یہ قادیانی ہےاور فلاں فلاں کی ایجنٹ ہے،کچھ ایسی ہی بات ابو سے عارف حسین شاہ صاحب نے بھی کہی تو انہوں نے کہا کہ ”سنی سنائی پر نہ جائیں آپ یہ دیکھیں جب بھی کوئی ظلم ہو وہ فورا لبیک کہتی ہیں۔میرا خیال ہے ظالموں کے نیٹ ورک کے استحصالی ٹولے نے انکی آواز دبانے کیلئے یہ پروپیگنڈہ کیا ہے۔اس سے بڑھ کر کون مسلمان ہوسکتا ہے جو مظلوم کا ساتھ دے اور ظالم کو للکارے،نیت کو ہم نہیں جان سکتے مگر عمل بتاتے ہیں کہ انسان دوست، نیک دل عورت ہے”یہ بات توپڑھے لکھے اور منجھے ہوئے علماء کی تھی تو اندازہ لگا لیں عام دیسی عالم حضرات کیا کہتے ہونگے۔عاصمہ جہانگیر کو اپنی زندگی میں کئی مرتبہ غداری اور توہین عدالت جیسے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا،ان کے گھر پر کئی حملے ہوئے، نظر بند ہوئیں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں،عدلیہ بحالی تحریک میں ان کا کردار انتہائی جاندارتھا،کو چیر پرسن ساوتھ ایشیاء فار ہومین رائٹس ،وائس صدر انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس ،اقوام متحدہ کی سپیشل مندوب برائے انسانی حقوق و مذہبی آزدی کے طور پرانہیں ایران اور سری لنکا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی حقیقت جاننے کے لئے نامزد کیا گیا، دنیا بھر میں مشکل ترین حالات میں اپنے دوٹوک مئوقف اور کھل کر اپنے خیالات کے اظہار پر انہیں انتہائی احترام کی نظر سی دیکھا جاتا تھا،بطور وکیل وہ ہمیشہ اس مسلمہ اصول پر قائم رہیں کہ ملزم کو عدالت میں اپنے دفاع کا مکمل حق ہے، وہ ہمیشہ ملک میں موجودترقی پسند جدوجہد رکھنے کے لئے پر عزم رہتیں، ان سے کسی کو جتنا بھی اختلاف ہو مگر کسی ڈکٹیٹر کے خلاف کھڑے ہونا ،ہیومن رائٹس کے لئے زندگی وقف کرنااور اپنے کیریئر کے آدھے سے زیادہ مقدمات بغیر فیس کے لڑنا کسی طور کم فلاحی اقدامات نہیں،وہ آمریت کے خلاف جمہوریت کی علامت تھیں،جمہوریت کیونکہ انسانی حقوق کی ضمانت فراہم کرتی ہے لہذا اس کیلئےان کی کاوشیں اور قانون کی بالادستی کے لیے جدوجہد نا قابل فراموش ہے۔عاصمہ جہانگیر کی پوری زندگی عدل و انصاف کے قیام اور قانون کی حکمرانی کے لیے وقف رہی۔ مرحومہ نے ایک قابل فخر بیٹی ،عظیم ماں ، ماہر قانون دان اورجمہوریت پر کامل یقین رکھنے والے فرد کے طور پر پاکستان کی عدالتی اور سیاسی تاریخ پر ان مٹ نقوش چھوڑے۔جمہوریت، قانون و انصاف،انسانی حقوق،خواتین کیلئے خدمات یاد رکھی جائیں  گی۔ عاصمہ جہانگیر نے آئین وقانون کی بالادستی کے لئے عمر بھر جدوجہد کی انکی نا گہانی موت سے پیدا ہونے والا خلاء  مشکل سے پر ہو گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے