’میں سسک سسک کر مرنا نہیں چاہتی‘

27 جنوری 1952ء کو لاہور میں طلوع ہونے والا چراغ زندگی کی 66 بہاریں دیکھ کر آج 11 فروری 2018ء کو لاہور ہی میں غروب ہوگیا۔ جی ہاں جہدِ مسلسل کا عالمی نام عاصمہ جہانگیر آج انتقال کر گئیں ہیں۔ آج وہ آواز خاموش ہو گئی ہے جو ہر ایک مظلوم عورت کے حقوق کے لیے لڑنا بھی اپنا فرض سمجھتی تھیں۔

آج وہ آواز بند ہوئی ہے جو مرد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا عورت کا بنیادی حق قرار دیتی تھیں اور پاکستان میں عورت کے حقوق کے لیے لڑنا اپنے ایمان کا حصہ اور عبادت سمجھتی تھیں۔

عاصمہ جہانگیر نے جب ہوش سنبھالا تو ان کے والد ملک غلام جیلانی یحیی خان کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں سیاسی قیدی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ماں روایتی اور دقیانوسی سوچ کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے شہرت رکھتی تھیں اور جس زمانے میں عورتوں کو اسکول بھیجنا معیوب بات تھی اس وقت کو ایجوکیشن (Co Education) میں تعلیم حاصل کرتی تھیں اور 1965ء میں کپڑے کے مشہور برینڈ کا کاروبار کرتی تھیں۔ لیکن وہ کاروبار یحیی خان کے دور میں سیاسی انتقام کا نشانہ بن گیا۔

عاصمہ جہانگیر نے ابتدائی تعلیم کانونٹ آف جیزز اینڈ میری سے حاصل کی، کنیرڈ کالج سے بی اے کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی پاس کیا۔ 1980ء میں لاہور ہائیکورٹ اور 1982ء میں سپریم کورٹ کی ممبر بنیں۔ 1980ء میں جمہوریت کے حق میں آواز بلند کی اور 1983ء میں ضیاء الحق کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں جیل گئیں اور اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

ضیاء الحق کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں آواز اٹھانے سے انہین بین الاقوامی شہرت نصیب ہوئی۔1987ء میں ہیومیں رائیٹس کمیشن آف پاکستان کی بنیاد رکھی اور اس کی سکیرٹری جزل منتخب ہوئیں۔ 1993ء میں انہیں کمیشن کی چئیرپرسن بنا دیا گیا۔

2008ء میں مشرف کی ایمرجنسی میں گھر میں نظر بند رہیں اور وکلا تحریک میں کامیابی کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کی پہلی خاتون صدر منتخب ہوئیں۔ یہ اعزاز صرف انہی کے پاس ہے۔ 2004ء سے 2010ء تک اقوام متحدہ میں مذہبی آزادی کے حوالے سے خدمات سرانجام دیں۔

ان کی خدمات کے اعتراف میں انہین رائیٹ لولی ہوڈ ایوارڈ، فریڈم ایوارڈ، ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز، اور یونیسکو پرائز، مارٹن اینیلز ایوارڈ سمیت کئی عالمی و مقامی اعزازات سے نوازا گیا۔

عاصمہ جہانگیر اور ان کی بہن حنا جیلانی نے پاکستان میں خواتین کی پہلی لا فرم رجسٹرڈ کروائی. عاصمہ جہانگیر نے کئی کتابیں بھی لکھیں جن میں قابل ذکر, دی حدود آرڈینینس 1988 اے ڈیوائن سینکشن۔ اور چلڈرن آف لیسر گاڈ: چائلڈ پرزنرز آف پاکستان ہیں۔

ایک دن انہوں نے مجھے بتایا کہ اُن کی زندگی کا سب سے کامیاب لمحہ وہ تھا جب انہوں نے زیادتی کا شکار ہونے والی ایک مزدور عورت کا کیس اٹھایا۔ مزدور عورت عدالت کا رخ نہیں کرنا چاہتی تھی، عاصمہ جہانگیر نے اسے ہمت دی، اسے یقین دلایا کہ وہ بھی اتنی ہی مضبوط ہے جتنا کہ ظلم کرنے والا مرد مضبوط ہے۔ جب وہ عورت ذہنی طور پر تیار ہو کر سپریم کورٹ آئی اور اس کا مخالف ظالم شخص اس کے سامنے آیا تو اسے دیکھ کر عورت نے اپنا ایک ہاتھ کمر پر رکھا اور دوسرا ہاتھ ہوا میں لہرا کر سینہ تان کر اس ظالم مرد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پنجابی میں للکارا کہ ’میں وی ہن عدالت آگئی آں۔ ہن میں تینوں ویکھاں گی۔‘

عاصمہ نے کہا کہ، ’اس غریب لاچار اور کمزور عورت کے اندر میری وجہ سے جو جرات آئی وہ میری زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ تھا، مجھے لگا کہ میں آج کامیاب ہو گئی ہوں۔‘ ان کی زندگی کی ساری خوشیاں انسانی حقوق کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں۔

انہوں نے اپنی ساری زندگی مخالف سمت میں پرواز کیا ہے۔ وہ ضیاء الحق کا زمانہ ہو یا مشرف کی زیادتیاں ہوں، انہوں نے ہمیشہ وہ بات کی جسے وہ حق اور سچ سمجھتی تھیں۔ ان کی آزادانہ سوچ اور حکمرانوں کی انصافیوں کے خلاف آواز کی وجہ سے انہیں جیل اور قید و بند کی صعبتیں برداشت کرنی پڑیں لیکن وہ کبھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں۔ جو کہا اس پر ڈٹ گئیں جو کیا سینہ تان کر کیا، جو کہا ببانگ دہل کہا۔ پھر آگے جو آیا ان کی شخصیت کے سامنے بلڈوز ہوتا چلا گیا۔

عدالتیں ان کا بہت احترام کرتی تھیں۔ کوئی کیس چل رہا تھا، عاصمہ جہانگیر نے ایک دن دعویٰ کیا کہ وہ آج ضمانت لے کر ہی عدالت سے نکلیں گی، گو کہ بظاہر ناقابل یقین تھا کیونکہ مخلاف پارٹی کا وکیل طبیعت خرابی کا بہانہ بنا کر چھٹی پر چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس اقبال سندھوکی عدالت تھی، پاکستان کے بڑے بزنس ٹائی کون کا کیس تھا اور عاصمہ جہانگیر بزنس ٹائی کون کی وکیل تھیں۔ عدالت کھچا کچھ بھری ہوئی تھی۔ کیس کی آواز لگی اور عاصمہ جہانگیر عدالت میں پیش ہوگئیں۔ کیس شروع ہوا تو نیب کے نمائندے نے کہا کہ آج ہمارا وکیل حاضر نہیں ہوسکا کیونکہ وہ بیمار ہے ہمیں اگلی تاریخ دیدی جائے۔

جج صاحب تاریخ دینے ہی لگے تھے کہ عاصمہ جہانگیر نے جسٹس اقبال سندھو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جسٹس صاحب میں کینسر کر مریضہ ہوں اور خاتون ہوں۔ میرے پروفیشن کا تقاضا ہے کہ اگر میرا کیس آج لگا ہے، عدالت میرا انتظار کر رہی ہے اور اس عدالت کے لگنے میں عوام کے ٹیکس کا پیسہ خرچ ہورہا ہے تو میں کسی بھی حالت میں عدالت پہنچوں۔ مائی لارڈ میں کینسر کی مریضہ ہوں۔ ڈاکٹر نے مجھے بیڈ ریسٹ کے لیے کہا ہے۔ لیکن اگر میں کینسر کے مرض مین مبتلا ہو کر بھی عدالت آئی ہوں تو سرکاری وکیل عدالت کیوں نہیں آجاتا۔ مجھے یقین ہے کہ انہیں کینسر جتنا بڑا مرض نہیں لاحق ہوگا۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ انہیں ابھی بلائیں میں آدھا گھنٹا انتظار کرلیتی ہوں۔‘

جج صاحب اور سرکاری نمائندے نے عاصمہ جہانگیر کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ بضد رہیں۔ مجبوراً عدالت نے سرکاری وکیل کو آدھے گھنٹے میں بلانے کے احکامات جاری کرنے پڑے۔ سرکاری وکیل آدھے گھنٹے میں عدالت پیش ہوا۔ کیس سنا گیا اور عاصمہ جہانگیر کیس جیت کر عدالت سے باہر آئیں۔

میں کورٹ روم میں یہ سارا ماجرا دیکھ رہا تھا۔ میں نے عدالت سے نکلتے ہی عاصمہ جہانگیر سے پوچھا کہ آپ کو کیسے یقین تھا کہ آپ کیس جیت جائیں گی۔ عاصمہ جہانگیر نے جواب دیا کہ، ’میں نے کبھی اپنے پروفیشن سے بد دیانتی نہیں کی یہی میری کامیابی کی وجہ ہے۔‘

وہ خود کو ’غنڈہ آف ویمن‘ کہلانا پسند کرتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ اگر ہمارے نوجوانوں کو بہتر زندگی چاہیے تو انہیں اپنی آؤٹ لک بدلنی ہو گی۔ دقیانوسی سوچ اور حُلیے کبھی آپ کو آگے نہیں جانے دیں گے۔ یہ آپ کی ترقی مین سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ آنے والے وقت کے تقاضے سمجھو۔ وہ کہتی تھیں کہ ہمیشہ کھلی فضا میں سوچیں۔ تنگ اور گھٹن والے ماحول سے باہر نکلیں اور اصل زندگی بھی یہی ہے۔

وہ جب بھی مجھ سے ملتی تھیں تو کہتی تھیں کہ اللہ مجھے چلتا پھرتا ہی اس دنیا سے لے جائے میں سسک سسک کر مرنا نہیں چاہتی۔ اللہ نے ان کی یہ دعا بھی قبول کی۔

اس دنیا سے رخصت ہونے سے دو دن قبل وہ سپریم کورٹ میں اپنا کیس لڑ رہی تھی۔ اور اپنی ذمہ داریاں پورے ہوش و حواس میں ادا کر رہی تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ اپنے کام اور ملک کے ساتھ وفاداری، مظلوم عورتوں اور بچوں کو ان کا حق دلانا اور انھیں کمزور سے طاقتور بنانا ایسے عمل ہیں جو ان کی بخشش کا سبب بنیں گے۔ جب تک دنیا میں انسانی حقوق کی تنظیمیں کام کرتی رہیں گی عاصمہ جہانگیر ملک پاکستان کے ماتھے پر ہیروں کا جھومر بن کر سجتی رہیں گی۔

میرے لیے عاصمہ جہانگیر کل بھی زندہ تھیں آج بھی زندہ ہیں اور کل بھی زندہ رہیں گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے