مادری زبان سے میڈیا کی زبان تک ؟

مادری زبان سے میڈیا کی زبان تک ؟

اردو اور انگریزی کا گٹھ جوڑ

میں پنجابی ، سندھی ، بلوچی اور پختون ہوں ،، میرے آباؤ اجداد مادری زبانوں میں بات کرتے ہیں ،،چھوٹے قصبوں دیہات اور گوٹھ کے سکول سے نکل کر کالج اور پھر یونیورسٹی تک پہنچتے پہنچتے مجھے جس زبان بولنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا وہ تھی میری مادری زبان ، مجھے اپنی مادری زبان بولنے پر کبھی پینڈو تو کبھی جاہل کے “خوبصورت” الفاظ سے نوازا گیا،،مجھے میری ہی مادری زبان میں پڑھنے نا دیا گیا اور حد تو یہ ہے کہ مجھے اپنی مادری زبان میں کبھی لکھنے بھی نہ دیا گیا ،،اس سب کے بعد جو اثر مجھ پر ہوا وہ تھا اپنی مادری زبان سے دوری اور پھر آہستہ آہستہ میری ہی مادری زبان کے الفاظ میری گفتگو سے محو ہونے لگی اور ہم اپنی زبان بھول گئے .

یہ سب اس لیے لکھا گیا کہ یہی سب ہو رہا ہے ،، میں یونیورسٹی پہنچا تو احساس ہوا کہ جو زبان ہم آج تک بولتے آئے ہیں اس میں تو کوئی بات نہیں کر تا ،، لوگ اردو بولتے ہیں اور وہ بھی گلابی ،، دو قسم کے لوگ ملے ،، ایک وہ جو اردو بولتے تھے تو انکی زبان میں انکی مادری زبان کے الفاظ جا بجا نظر آتے تھے ،، دوسرے بڑے شہری لوگ ،، ان کی گلابی اردو کے ساتھ انگریزی الفاظ کی چاشنی بکثرت پائی جاتی ہے، ،، یونیورسٹی میں یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی فیسسز پے کرنی ہیں ، واش روم اور باتھ روم کے فرق سے بھی کوئی خاص آگاہی نہیں رکھتے ، واش بیسن اور سنک کا فرق یہ شہر والے بھی زرا کم ہی سمجھ پاتے ہیں ،،دیہات والے توں خیر ہوتے ہیں پینڈو ہیں

بات یہاں پر نہیں رکتی جو طلباء میڈیا پر نظر رکھتے ہیں وہ یونیورسٹیوں میں ماس کام یا میڈیا کمیونیکیشنز ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ تو لے لیتے ہیں لیکن یہ اردو چینل دیکھنے والے پڑھ سب کچھ انگریزی میں رہے ہوتے ہیں ،،پورے کورس میں انکو ایک ہی نام یاد رہتا ہے وہ نوم چومسکی کا نام ہے اور اتنی بڑی شخصیت بارے بھی صرف اتنا ہی جان پاتے کہ میڈیا سٹیڈیز میں بہت بڑا نام ہے خیر جیسے تیسے ماس کام میں ماسٹرزیا بی ایس مکمل کر کے جب یہ ڈگریاں تھامے میڈیا کے دروازے پر دستک دیتے ہیں تو دو قسم کے لوگ انکا استقبال کرتے ہیں ایک وہ جو اردو سے اچھی خاصی واقفیت رکھتے ہیں اور دوسرے جو انگریزی بارے خوب جانتے ہیں،، یہاں آکر یہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی اور غلط اردومیں پھنس کر رہ جاتے ہیں،

کچھ تو شروع ہی کے چند ایام میں حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں اور میڈیا کی کھڑکی سے تانک جھانک کے بعد نکل جاتے ہیں، اور وہ جو رہ جاتے ہیں ان میں کچھ کرنے کا اور اپنی عزت کا ہر وقت جنازہ نکالنے کا دل گردہ ہونا بے حد ضروری ہے، اردو نہ آنے پر بے عزتی ، انگریزی نہ آنے پر توہین، خبر کی سمجھ نہ انے پرخواری، حتی کہ توہین اور بے عزتی انکی زندگی کا اہم جزو بن جاتی ہے، اور یہ سلسلہ برسوں پر محیط رہتا ہے،

میڈیا ہاؤسسز میں دن رات ایک کرنے کے باوجود ماس کمیونیکیشن کی ڈگریاں انکے کام کم ہی آتی ہیں، ان جغادریوں میں سے کچھ کو انگریزی اور زیادہ تر کو اردو پر عبور ہونے کے دعوے بھی بھسم ہوتے نظر آتے ہیں، مختلف اداروں سے جو اعلامیئے آتے ہیں وہ زیادہ تر انگریزی میں ہوتے ہیں، اب یہ انکے اردو ترجمعے کے گھن چکر میں ایسا پھنستے ہیں کہ ناامیدی کی حدود انکے ذہنوں کو گھیر لیتی ہے .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے