’’ہم ایک خوفزدہ معاشرہ بن چکے ہیں۔ جمہوری اقدار اور قانون کی حکمرانی کی جڑیں ہمارے اجتماعی ضمیر میں پیوست نہیں ہیں۔ نظام ِ تعلیم انتہاپسندی کی ترویج کرتا ہے ۔ اس پس ِ منظر میں بھڑکیلی تقریریں، جھوٹی خبریں ، بہتان تراشی اور کردار کشی ، جسے جنگجویانہ عاملیت کے مخصوص دھڑوں کی سرگرم حمایت حاصل ہے، ہمیں مطلق العنانی کی طرف لے جارہی ہیں ۔۔۔‘‘ یہ گزشتہ کالم پر ایک قاری کا برمحل تبصرہ ہے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے قومی مسائل کا ا س سے جامع اظہار ہونہیں سکتا۔‘‘
رائو انوار واقعہ نے اس مسئلے کے ایک اور پہلو کو اجاگر کردیا ہے : بدمعاشوں کو رول ماڈل بنانا اور قانون کی دھجیاں بکھیرنے والوں کو ریاستی سرپرستی فراہم کرنا، اور اس برتے پر اُن کا اعلیٰ عہدے حاصل کرجانا۔پراسرار کردار رکھنے والا ایک ایس ایچ او، جس پر سینکڑوں ماورائے عدالت ہلاکتوں کا الزام ہے ، جو گہری نظر رکھنے والی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو غچہ دے کر غائب ہوجاتا ہے ، سپریم کورٹ کو بھی خاطر میں نہیں لاتا ،تو کیا وہ ایک روزہماری درسی کتب میں ایک ہیرو کے طور پر لکھا جائے گا؟(اور یہ خارج ازامکان نہیں۔ ہم نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں اُن کی والدہ کا ذکرتاریخ کی کتب میں دیکھا ہے)۔
رائو انوار کے مبینہ افعال بد سے اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات میں سے کسی کی رات کی نیندیں حرام نہیںہوئیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی اُسے متعدد بار عدالت میں طلب کیا ۔ کئی مرتبہ عدالت کے موقف میں تبدیلی لائی گئی تاکہ اُسے کسی نہ کسی طرح وائی فائی کی سہولت رکھنے والی پناہ گاہ سے باہر آنے کی ترغیب دی جاسکے ۔ یہ رعایت اور مفاہمتی رویہ اُس عظیم عدالت کی طر ف سے دیکھنے میں آیا جس کے ایوان سے عام انسانوں کے لئے ’’چور‘‘، ’’مافیا‘‘، ’’ڈاکو‘‘ جیسے الفاظ کی بازگشت معمول کی بات ہے ۔حتمی عدالت ہونے کی وجہ سے یہ سزا دینے کے بے پنا ہ اختیارات رکھتی ہے ۔ چنانچہ اس کی طرف سے ایک ایسے شخص، جس کے ہاتھ مبینہ طور پر شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، کے لئے ایسا رویہ اختیار کرنا غیر معمولی بات ہے ۔
سابق صدر آصف علی زرداری بھی پیچھے نہ رہے۔ اُنھوں نے بھی مقدور بھر تعریف کرتے ہوئے اُسے ایسا ’’بہادر بیٹا‘‘ قرار دے ڈالاجو متحدہ راج سے بچ نکلاتھا ۔ قارئین کو کراچی کے وہ دن یاد ہوں گے جب انسانیت، جمہوریت اور قومی مفادکے عظیم رکھوالے خاموشی سے کراچی میں ملنے والی لامتناہی لاشوں کے گواہ تھے ۔ قاتلوںکے خلاف نہ تحقیقات ہوسکتی تھیں اور نہ قانونی کارروائی ۔ پیپلز پارٹی کے موجودہ بادشاہ گر نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ایس ایس پی (جو تادم ِ تحریر گم شدہ ہے) کی تعریف کی اور غالباً غائبانہ طور پر گلے لگا کر تھپکی بھی دی ہوگی۔
اس افسر کی عدم بازیابی پر ہم نے فوجی قیادت کی طرف سے ناراضی کا اظہار تو کجا ،ایک لفظ تک نہیں سنا ۔ ہمارے کان ’’انصاف کی یقین دہانی کے لئے بھرپور حمایت ‘‘ کے طاقتور پیغام کے عادی ہوچکے ہیں۔ یہ الفاظ فی الفور خبر بن کر قوم کے دل میں اتر جاتے ہیں۔ زینب قتل کیس ، جو تمام تر سنگینی کے باوجود بہرحال ایک مقامی جرم تھا، پر ہم نے ہر اہم دفتر کی طرف سے تشویش کا اظہار سنا،لیکن رائو انوار پر کوئی پتہ تک نہ کھڑکا۔ اپوزیشن جماعت، پی ٹی آئی، 2011ء کے بعد سے پنجاب میں پولیس مقابلوں میں ہونے والی خوفناک ہلاکتوں کے ذمہ داروں (ان کا اشارہ موجودہ وزیر ِاعلیٰ پنجاب کی طرف ہے) کو سزا دلانے پر مصر ہے ۔ لیکن عمران خان کا بے حد مصروف ٹوئیٹر اکائونٹ رائو انوار کے مسئلے پر چپ کی چادر تانے ہوئے ہے۔
یہ تمام صورت ِحال ’’خاموش حمایت ‘‘ کے مترادف ہے ۔ تاثر جارہا ہے کہ نظام رائو انوار کی حمایت کررہا ہے کیونکہ یہ رائو کے افعال کوغلط نہیں گردانتا۔ اگر یہ قتل نقیب اﷲ محسود (جو محسود قبیلے سے تعلق رکھتا تھا) کا نہ ہوتا، اور نہ ہی اس کے بعد قبیلے کے نمائندوں کی طرف سے احتجاج کیا جاتا اور نہ ہی اس احتجاج کی بازگشت انڈیا اور افغانستان میں سنائی دینے لگتی تو عین ممکن ہے کہ رائو انوار ابھی تک پورے کرو فرکے ساتھ ملیر میں اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہوتا۔ ممکن ہے کہ اُس کی اب تک ترقی ہوچکی ہوتی، بنک اکائونٹس میں مزید اضافہ ہوچکا ہوتا، اور اب تک وہ دبئی کے کئی ایک کیف آفریں دورے بھی کرچکا ہوتا۔ اگر بس یہ ایک ہلاکت نہ ہوتی تو ہوسکتا ہے کہ ریٹائر منٹ کے بعد وہ سینیٹ کے لئے پی پی پی کا ٹکٹ حاصل کرکے باقی زندگی ملک کے لئے قانون سازی کرتا ، یا کسی سرکاری محکمے کے پرکشش امور نمٹاتا۔
ریاست اور اس کے اداروں کو ہلاکتوں، قتل، فساد، دھوکے، دروغ، فراڈ اور اس قبیل کے کسی فعل پرکوئی پریشانی نہیں ہوتی ۔ قانون شکنی اُسی وقت پریشان کن بنتی ہے جب ریاست اور اس کے اداروں کے استحقاق اور مفاد کو چیلنج کیا جائے ۔ وگرنہ رائو انوار جیسے کردار اس نظام اور اس نظام کو چلانے والی ریاست کے ماڈل ہیں۔ اور سچی بات یہ ہے کہ رائو انوار جوکچھ مبینہ طور پر کرتا رہا ہے ، اس کا الزام کلی طور پر اُس پر نہیں آتا۔ وہ ایک ایسی ہلاکت گاہ سے بچ نکلا جہاں اُس کے ساتھیوں کو کراچی کے قاتلوں نے لرزہ خیز طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا۔ اور یہ بچائو صرف دعائوں سے نہیں ممکن تھا۔ اُسے محافظوں اور پشت پناہی کرنے والوں کا تعاون درکار تھا۔ اس جنگل میں تنہا مسافر کا کیا کام؟ چنانچہ اُس نے بچائو کے درست محافظ چنے ۔
تشدد کے سانپ سیڑھی کے کھیل میں اس نے ہر قسم کا دائو کھیلا ہوگا۔ خاص طور پر جو دائو طاقتور اشرافیہ کو بھاتا تھا۔ یہ اشرافیہ پہلے تو جرائم کو پھولنے پھلنے کی اجازت دیتی ہے کیونکہ اُس وقت جرائم پیشہ عناصر اُن کا مقصد پورا کرتے ہیں، لیکن جب اُن کی ضرورت نہیں رہتی تو اُنہیں ختم کردیا جاتا ہے۔ اُس نے ضرور دیکھا ہوگا کہ کس طرح سیاست دان، جج، کاروباری افراد اور میڈیا ہائوس تشدد اور ٹارگٹ کلنگ کے دیوتائوں کے سامنے سرنگوں رہتے ہیں، اور کس طرح ’’قائد کا پاکستان ‘‘ جیسے نعرے غیر اہم ہوچکے ہیں۔ رائو انوار نے شہر ِ قائد میں یہ خونی کھیل اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اُسے یقین ہوگیا ہوگا کہ حکمران اس ملک کو اُس عظیم رہنما کے تصورکے مطابق ڈھالنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اور پھر اس گنگا کنارے بیٹھ کرہاتھ خشک رکھنا حماقت ہے۔ چنانچہ اُس نے بچائو کی سند سے شہ پاتے ہوئے میدان میں اپنی ڈگری نافذ کرنا شروع کردی ۔ ریاست بھی فرماں بردار معاشرہ دیکھنا چاہتی ہے ۔ خوف سے بڑھ کر کوئی چیز فرماں بردار نہیں بناتی۔
رائو انوار کا بزنس (اگر اسے بزنس قرار دیا جاسکے ) مختصر ترین وقت میں اونچا تر ین نفع کمانے کا تھا۔ اس کے لئے بھرپور قوت ، استحقاق اور بلا روک ٹوک فعالیت درکار تھی ۔ چونکہ وہ آئوٹ پٹ دے رہا تھا، اس لئے اُس کی پشت پناہی کی گئی۔یہ ماحول اُسے اتنا سازگار تھا جتنا بطخ کو پانی ۔ لیکن وہ اس دریا میں اکیلا نہیں تھا۔ بہت سے دیگر اسی میدان کے کھلاڑی تھے ۔ اور وہ یہ کھیل کیوں نہ کھیلتے؟ وہ اس ریاست کے کھلاڑ ی ہیں جو شفاف طریقے سے جرائم کی سزا دینے سے قاصر ہے ۔ بلوچستان سے لے کر فاٹاتک اور کراچی سے لے کر لاہور اور سوات تک، بے شمار رائو انوار فعال ہیں۔ وسائل، طاقت اور عوام پر اُن کا تصرف ہے ۔
بلاشبہ رائو انوار ہمارے دور کا ایک رول ماڈل ہے ۔ وہ ہمارے وقتوں کی علامت ہے ۔ ریاست کے طاقتور ادارے اُس کا لحاظ کرتے ہیں، اور پھرمعاشرے کو بھی اُن کی عزت کرنی پڑتی ہے ۔ اس قسم کے افراد کی طلب کبھی کم نہیں ہوگی۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ قانون اُس سے کیسے نمٹتا ہے ۔ اس نے تمام زندگی قانون کے مطابق نہیں ، بندوق کی طاقت سے کام کیا تھا۔ اورا س دنیامیں بندوق کی طاقت بہت دور تک کام کرتی ہے ۔ ’’سکہ رائج الوقت ‘‘ محاورہ خالی از علت نہیں۔ یہاں ہمارے لئے ایک سبق بھی ہے ۔ بہت جلد ہم میںسے کچھ اپنے بچوں کو یہی سبق پڑھا رہے ہوں گے ۔ یہی ہمارے دور کے حقائق ہیں۔ رائو انوارزندہ باد۔ جہاں تک قانون کا تعلق ہے تو اس کی زنجیر کے لئے کمزور افراد کی کوئی کمی نہیں۔