بل گیٹس اور سٹیو جابز دو ایسے نام ہیں جن کی دولت اور کامیابیوں کی گونج اس کرہ ارض کے ہر آباد علاقے میں سنائی دیتی ہے کہ دونوں نے گزشتہ چار دہائیوں میں دنیا کے چند امیر ترین لوگوں کی فہرست میں نہ صرف اپنے نام کو قائم رکھا بلکہ درجہ بندی کے اعتبار سے بھی مسلسل ترقی کرتے رہے، اتفاق سے آج سٹیوجابز کی بستر مرگ پر اپنی دولت کے بارے میں کہی ہوئی کچھ باتیں اور بل گیٹس کے چند اقوال ایک ساتھ ہی نظر سے گزرے تو ایک بار پھر یہ سوال ذہن کی دہلیز پر چمکے کہ کیا دولت سے خوشی خریدی جا سکتی ہے یا اس کا نعم البدل ہو سکتی ہے؟ کسی کی زیادہ سے زیادہ ضرورت کی مد سے فاضل دولت کوئی حقیقت رکھتی بھی ہے یا نہیں؟ اور یہ کہ اس کی قوت خرید کہاں اور کیوں جواب دے جاتی ہے؟
یہ تینوں سوال نہ تو نئے ہیں نہ انوکھے اور نہ محض نظریاتی ہی۔ ہر سوچنے اور غور کرنے والے دماغ میں کسی نہ کسی رنگ میں یہ ہمیشہ موجود رہتے ہیں اور ہر کوئی اپنی بساط بھر ان پر رائے زنی بھی کرتا ہے، چاہے وہ بامراد ہو یا نامراد، اسی طرح شاعر‘ فلسفی‘ صوفی اور متقی اسے اقتصادیات کے ماہرین کی وضع کردہ اصطلاحوں سے ہٹ کر اسے سیم و زر، کرنسی نوٹ اور کریڈٹ کارڈ کے علاوہ بھی کچھ ایسے حوالوں سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جن میں ہندسوں اور اعداد کا عمل دخل نہیں ہوتا اور جو صفر کی قیمت اور کمیت دونوں سے بے نیاز ہوتے ہیں اور دماغ سے زیادہ دل کی گواہی پر یقین رکھتے ہیں۔
ہیگل اور کارل مارکس وغیرہ نے نقطہ نظر کے اس فرق کو Haves اورHave not میں بانٹ کر ایک ایسی تھیوری کی شکل دے دی جس نے مذہب اور سرمایہ دارانہ نظام میں بٹی ہوئی دنیا کو سوشلزم کے نام سے ایک تیسرا فریق بھی فراہم کر دیا ہے لیکن فی الوقت ہم اس بات کو سرمایہ دارانہ نظام کے دو اہم ترین اور نامور لوگوں کی باتوں تک ہی محدود رکھتے ہیں کہ اتفاق سے ان میں باقی دو رنگ بھی آپ سے آپ در آئے ہیں تو آئیے پہلے دیکھتے ہیں کہ سٹیو جابز نے مرنے سے کچھ عرصہ پہلے اپنی دولت اور پھر اس کی اصلیت کے بارے میں کیا کہا۔ یہ ایک قدرے آزاد ترجمہ ہے کہ مقصد اس بات کے جوہر کو نمایاں اور واضح کرنا ہے زباندانی کے کمال دکھانا نہیں۔
’’میں نے بزنس میں انتہائی بلندیوں کو چھو لیا اور لوگوں کے نزدیک میری زندگی کامیابی کی ایک روشن ترین مثال ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اپنے کام سے ملنے والی عملی مسرت سے قطع نظر میرے پاس ’’خوشی‘‘ کے مواقع نہ ہونے کے برابر رہے، آخری تجزیے میں میری دولت صرف ایک ایسا واقعاتی سچ رہ گئی جس سے صرف میں ہی واقف تھا۔
اس وقت اسپتال کے بستر پر دراز میں اپنی زندگی پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ دولت اور تعریفوں کے وہ تمام انبار جن پر میں فخر کیا کرتا تھا اس خیال کے ساتھ ہی بے معنی ہو گئے کہ اب آگے موت ہے، اس تاریکی میں جب میں مصنوعی سانس دلانے والی مشینوں کی سبز روشنیوں کو دیکھتا ہوں اور ان کی مسلسل گونج اور بے نام موجودگی کو محسوس کرتا ہوں تو میں ان کے ساتھ ساتھ چاروں طرف پھیلتے ہوئے موت کے سایوں کو بھی دیکھ سکتا ہوں اور صرف یہ ہی وہ وقت ہے جب میں یہ جان چکا ہوں کہ جب تم اپنی ضرورت کے مطابق اتنی دولت جمع کر لو جو تمہاری باقی عمر کے لیے کافی ہو تو تمہیںاس کے بجائے ان کاموں اور باتوں کی طرف توجہ دینی چاہیے جن کا تعلق دولت سے ہوتا ہی نہیں اور اس مصروفیت کو باقی کے ہر کام پر فوقیت اور فضیلت حاصل ہونی چاہیے، مثال کے طور پر، محبت کی کہانیاں‘ فنون لطیفہ اور بچپن کے دیکھے ہوئے خواب۔
کیونکہ دولت کے پیچھے بھاگنے سے روگردانی اور انکار کیے بغیر آدمی صرف میری طرح بے شکل ہو سکتا ہے، خدا نے سب انسانوں کو ایک جیسا بنایا ہے سو لازم ہے کہ ہم ایک دوسرے کے دل میں بسی محبت کو محسوس کریں نہ کہ ان واہموں کے دھندلکوں میں الجھے رہیں جو شہرت اور دل سے پیدا ہوتے ہیں، وہی دولت اور شہرت جو میں نے خوب حاصل کی اور جس کو میں ساتھ نہیں لے جا سکتا کیونکہ میں صرف ان لمحوں کو ساتھ لے جا سکتا ہوں جن کو محبت نے جگایا تھا، یہی وہ دولت ہے جو تمہارے ساتھ جائے اور پیچھے چلے گی اور تمہیں آگے بڑھنے کے لیے روشنی اور طاقت فراہم کرے گی۔
محبت سیکڑوں میل کا سفر بغیر رکے اور بنا ٹھہرے کر سکتی ہے اور یوں زندگی کو کسی حد کی محتاج اور پابند نہیں کرتی جہاں چاہو یہ تمہیں لے جا سکتی ہے اور ان تمام منزلوں سے ہم کنار کرا سکتی ہے جنھیں تم حاصل کرنا چاہو کہ اس کی وجہ سے تمام چیزیں تمہارے دل اور ہاتھوں کی پہنچ میں ہوتی ہیں۔
دنیا کا سب سے مہنگا بستر‘ اسپتال کا بستر ہے
درست کہ تمہارے پاس دولت ہو تو تم اس سے کسی ایسے ڈرائیور کو خرید سکتے ہو جو تمہاری کار چلا سکے لیکن ساری دولت خرچ کر کے بھی تمہیں کوئی ایسا شخص نہیں مل سکتا جو اس بیماری کو اپنے سر لے لے جو تمہیں موت کی طرف کھینچے لیے جا رہی ہے، ساری چیزوں کا نقصان پورا کیا جا سکتا ہے انھیں دوبارہ حاصل بھی کیا جا سکتا ہے لیکن زندگی وہ چیز ہے جو ایک بار کھو جانے کے بعد پھر واپس نہیں ملتی‘ اسی طرح نہ وہ لمحہ جس میں اس وقت تم زندہ اور موجود ہو اور نہ ہی رخصت کے وقت کا وہ لمحہ جب بالآخر پردہ گر جائے گا۔
سو دوستو برائے خدا اپنے پیاروں اور گھر والوں کی توقیر کرو اپنے جیون ساتھی اور دوستوں کی محبت کی قدر پہچانو سب سے اچھا سلوک اور ہمسایوں سے مہربانی اور محبت کرنا سیکھو‘‘
یہ تھیں وہ باتیں جو سٹیو جابز نے موت کو روبرو دیکھ کر سوچیں اور کہیں اور اب زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے والے بل گیٹس کی ’’دنیا داری‘‘ والی کچھ باتیں بھی سن لیجیے کہ یہ اس شخص کے عمر بھر کے تجربوں کا نچوڑ ہے جس نے اس کی دولت کو بے شمار کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی فہم اور روح کو بھی روشن اور منور کیا کہ یہ بظاہر ہلکی پھلکی باتیں اپنے اندر ایک جہان بصیرت کا پھیلاؤ رکھتی ہیں۔
-1اگر آپ غریب پیدا ہوں تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں لیکن اگر آپ مرتے بھی غربت کے عالم میں ہیں تو یہ یقیناً آپ کا قصور ہے۔
-2میں مشکل اور سخت کام کرنے کے لیے ہمیشہ سست بندے کا انتخاب کرتا ہوں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہ ضرور کوئی نہ کوئی آسان رستہ نکال لے گا۔
-3آپ کا سب سے ناراض گاہک ہی آپ کا سب سے بڑا استاد ہوتا ہے۔
-4کامیابی ایک برا اور گمراہ کن استاد ہے کیونکہ یہ لائق لوگوں کو اس وہم میں مبتلا کر دیتا ہے کہ وہ کبھی ہار نہیں سکتے۔
-5 اگر تم کسی چیز کو اچھا نہیں کر سکتے تو کم از کم اتنا تو کرو کہ وہ دیکھنے میں اچھی لگے۔
-6میں پڑھائی کے دوران کچھ مضمونوں میں فیل ہو گیا جب کہ میرے دوست نے سب میں شاندار نمبر حاصل کیے آج وہ مائیکرو سافٹ کمپنی میں بطور انجینئر ملازم ہے اور میں اس کمپنی کا مالک ہوں۔