آج بھی جب کوئی لڑکی کام کرنے کا ارادہ ظاہر کرتی ہے تو سب سے پہلی رکاوٹ اسے اپنے گھر سے ہی ملتی ہے—۔فائل فوٹو
خواتین کے حقوق کی آگہی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔کئی بت ٹوٹ چکے ہیں، سرگوشیاں اب شور میں تبدیل ہوتی جا رہی ہیں اور لوگ کم از کم اب کھل کر بات کرنے لگے ہیں۔
خواتین کو معاشی دوڑ میں بھی سامنے آتا دیکھا جا رہا ہے اور باوجود اُن تمام مسائل کے، جن کا سامنا ایک کام کرنے والی خاتون کو کرنا پڑتا ہے، وہ اب فارمل سیکٹر میں بھی میدان مارتی دکھائی دے رہی ہیں لیکن جس رفتار سے ان کے سپورٹ سسٹم میں اضافہ ہونا چاہیئے تھا وہ اب بھی دکھائی نہیں دیتا۔ نہ ان کی مشکلات میں کمی ہوئی اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کی کوئی صورت دکھائی دیتی ہے۔
آج بھی جب کوئی لڑکی کام کرنے کا ارادہ ظاہر کرتی ہے تو سب سے پہلی رکاوٹ اسے اپنے گھر سے ہی ملتی ہے۔ سب سے پہلا اعتراض جس کا سامنا اسے کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ "کیا ضرورت ہے”؟، جس کا جواب دینا ایک لڑکی کے لیے انتہائی دشوار ہوتا ہے۔
"کیا ہم تمہارا خرچہ نہیں اٹھا سکتے، یا ایسی کیا ضروریات ہیں جو ہم پوری نہیں کر پا رہے”؟ تنقید اور سوالوں کا یہ نہ رکنے والا سلسلہ اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک وہ لڑکی کام کا ارادہ ترک نہ کر دے یا پھر اُس کو ضدی اور کہیں کہیں تو نافرمان تک قرار دے دیا جاتا ہے۔
اب بھی یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی لڑکی کسی دفتر میں کام کرنا چاہتی ہے تو اس کی وجہ آمدنی ہی ہوگی۔ کیریئر، دنیا میں کوئی مقام حاصل کرنا اور اپنی خودمختاری تو اب بھی اکثر گھرانوں کو سمجھ ہی نہیں آتی اور نہ ہی اس کو سراہا جاتا ہے۔
ایک اور بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ "لوگ کیا کہیں گے”! جسے اگر ہمارا "قومی مسئلہ” قرار دے دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ لوگوں میں یہ خیال رائج ہے کہ اگر ان کے گھر کی کوئی لڑکی کام کرتی ہے تو دیگر لوگ یہ تصور کریں گے کہ شاید ہماری مالی حالت ٹھیک نہیں ہے اس لیے ہم گھر کی خواتین سے کام کروا رہے ہیں یا پھر عورتوں کی کمائی کھا رہے ہیں، ان کی خواتین تو دفاتر میں غیر مردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔
اب بھی یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی لڑکی کسی دفتر میں کام کرنا چاہتی ہے تو اس کی وجہ آمدنی ہی ہوگی
یہاں یہ سمجھنے کی شدید ضرورت ہے کہ نوکری صرف دولت کے لیے نہیں ہوتی بلکہ اس کا بہت گہرا اثر سوچ کی وسعت، شعور، فہم و فراست، خود اعتمادی، بہتر فیصلہ کرنے کی قوت اور یقینی طور سے معاشی خوشحالی پر بھی پڑتا ہے اور یقین جانیے یہ سب گھر کے ماحول اور بچوں پر انتہائی مثبت اثر ڈالتے ہیں۔
ایک اور چیلنج، جس کا سامنا زیادہ تر خواتین کو کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ انہیں ہر چھوٹی بڑی بات کی اجازت لینا پڑتی ہے۔گھر سے اجازت ہو اور ہر فرد کی اجازت ہو تو وہ کام کر سکتی ہیں، کس انڈسٹری اور ادارے میں کام کرنا ہے اس کے لیے بھی اجازت ضروری ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ کام کے اوقات اب گھنٹوں اور شہروں تک محدود نہیں رہے، اور اگر زیادہ دیر کام کرنا ہو یا شہر سے باہر جانا ہو، تو بھی اجازت لینا پڑتی ہے اور ہر وقت یہ تلوار سر پر لٹکتی رہتی ہے کہ زیادہ مرتبہ دیر تک گھر سے باہر رکنا پڑگیا یا شہر سے باہر جانا ضروری ہوا تو کام کرنے کی اجازت ہی ختم ہو جائے گی، اس وجہ سے بہت سی خواتین سینئر مینجمنٹ کا حصہ نہیں بن پاتیں۔
"کیا ضرورت ہے؟ کیا ہم تمہارا خرچہ نہیں اٹھا سکتے”، یہ وہ سوالات ہیں جن کا سامنا اکثر لڑکیوں کو گھر والوں کی جانب سے کرنا پڑتا ہے
اکثر خواتین بہت با صلاحیت ہونے کے با وجود بھرپور مواقعوں سے مستفید نہیں ہو پاتیں کیونکہ انہیں ہر بات کے لیے گھر والوں سے اجازت لینا پڑتی ہے۔
اس حوالے سے امن فاؤنڈیشن کے سی ای او ملک احمد جلال کہتے ہیں، "میں نے چند سال پہلے امن فاؤنڈیشن کے لیے ایک خاتون کا انتخاب کیا تاکہ انہیں بین الاقوامی تجربہ حاصل کرنے کا موقع ملے، دبئی جاکر انہیں کچھ عالمی اداروں کے سامنے اپنے کام کو شوکیس کرنا تھا مگر انہوں نے اگلے دن آکر مجھے بتایا کہ ان کو گھر والوں نے جانے کی اجازت نہیں دی ۔اس کی وجہ سے مجھے ایک مرد کولیگ کو بھیجنا پڑا جو اس اسائنمنٹ سے فائدہ حاصل کرکے آیا "۔
ایک اور مسئلہ جس کا سامنا زیادہ تر شادی شدہ خواتین کو کرنا پڑتا ہے کہ اگر وہ دفتر میں کام کریں گی تو گھر کون سنبھالے گا؟ خاندانی روایات کے مطابق مہمانوں کی خاطر مدارات کیسے ممکن ہوگی؟ شدید تھکان کے باوجود سب کو وقت بھی دینا ہے اور خوش بھی رکھنا ہے۔
وہ خواتین جو کام کرتی ہیں، انھیں ساری دنیا کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ دفتر میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ وہ گھر، بچے، فیملی اور باقی تمام معاملات نہ صرف خوش اسلوبی سے نبھا رہی ہیں بلکہ اوروں سے بہتر نبھا رہی ہیں اور اس بات کو ثابت کرنے میں ان کی اپنی ذات ختم ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے لیے وقت نہیں نکال پاتیں اور اگر دفتر کے کام کے بعد وہ اپنی ذات کے لیے کچھ وقت نکالتی ہیں تو اس پر بھی بعض اوقات انھیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ویمن بینک کی صدر طاہرہ رضا کہتی ہیں، "اب یہ بات تو ہر سطح پر مان لی گئی ہے کہ جب تک خواتین کو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں برابری کے مواقع نہیں ملیں گے، قوم ترقی نہیں کر سکے گی اور یہ اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک لوگ اس بات کو نہ سمجھ لیں کہ گھر کے کاموں میں عورت اور مرد کی برابر کی شراکت داری ضروری ہے کیونکہ اسی صورت میں عورت کے پاس اتنا وقت ہوگا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکے”۔
اس طرح کے سوال اُس وقت تو اٹھتے ہی ہیں جب ایک شادی شدہ خاتون کام کر رہی ہو لیکن شادی سے پہلے بھی لڑکیاں ان مسائل کا سامنا کرتی رہتی ہیں کہ دفتر اور کیریئر کام نہیں آئیں گے، گھر کے کاموں پر توجہ دو ورنہ رشتے نہیں آئیں گے وغیرہ وغیرہ، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ دفاتر میں کام کرنے والی لڑکیوں کی شادی میں آج کے دور میں بھی مشکلات ہوتی ہیں اور اکثر اوقات شادی کی شرط کام چھوڑنا رکھی جاتی ہے۔
دفاتر میں کام کرنے والے بہت سے لوگ بھی یہی سوچ رکھتے ہیں کہ خواتین کو کام کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے
ایک اور بہت بڑا چیلنج خواتین کو ہراساں کیا جانا بھی ہے، حالاں کہ یہ صرف پاکستان نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں پایا جانے والا ایک مسئلہ ہے لیکن ہمارے ہاں اس کا سارا ملبہ خواتین پر گرتا ہے اور اکثر اوقات انہیں نوکری چھوڑنا پڑجاتی ہے۔کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق قانون سازی تو عمل میں آچکی ہے لیکن اس کا فائدہ خواتین کو پہنچ سکے اس کے لیے ابھی بہت وقت درکار ہے۔
افسوس کی بات ہے لیکن اب بھی دفاتر میں کام کرنے والے بہت سے لوگ بھی یہی سوچ رکھتے ہیں کہ خواتین کو کام کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے اور اکثر اوقات وہ صنفی تعصب پر مبنی ایسے جملے کہہ جاتے ہیں جو ان کی اسی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایسے تبصرے نہ صرف تکلیف دہ ہوتے ہیں، بلکہ یہ ان کے کام پر بھی منفی اثر ڈالتے ہی ہیں اور بعض اوقات وہ دل برداشتہ ہو کر نوکری بھی چھوڑ دیتی ہیں۔
اب ایک انتہائی دلچسپ بات، عموماً یہ تصور کیا جاتا ہے کہ بچوں کی وجہ سے خواتین کا کیریئر متاثر ہوتا ہے لیکن امریکا میں کی جانے والے ایک تحقیق کے مطابق 47 فیصد خواتین کا یہ ماننا ہے کہ بچوں کی وجہ سے ان کا کیریئر متاثر نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں صورت حال تھوڑی مختلف ہے۔ اگر ماں کام کرتی ہے اور اپنے بچے کو چھوڑ کر کام پر جاتی ہے تو اس کو طرح طرح کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیسی ماں ہے کہ بچوں کا کوئی خیال ہی نہیں یا بس اپنا ہی سوچتی ہے، بچوں کو تو بس چھوڑ ہی دیا ہے اور اگر خدانخواستہ بچہ بیمار ہو جائے تو اس کا سارا الزام عورت کے کام کرنے کو ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ بچوں کی وجہ سے اسے اپنے کیریئر کی قربانی دینا پڑ جاتی ہے۔
بہت ضروری ہے کہ اداروں میں ڈے کیئر سینٹرز قائم کیے جائیں اور اداروں کو اس کا پابند کیا جائے کہ وہ ڈے کیئر سینٹرز بنائیں۔ جن اداروں میں یہ سہولت موجود ہے، وہاں خواتین کی بہتر کارکردگی بھی زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔
خواتین کی فارمل سیکٹر میں شمولیت اور کارکردگی میں اضافہ کرنا ہے تو اس کے لیے سماجی، سول اور خاص طور پر کارپوریٹ سیکٹر کو مل کر، باقاعدہ اسٹریٹجک پلاننگ کرنا پڑے گی ورنہ سیمینارز، ورک شاپ اور کانفرنسز تو بہت ہوتی رہیں گی، شعور بھی اجاگر ہوگا لیکن یہ تمام کوششیں بے سود ہو جاتی ہیں اگر عملی اقدامات نہ کیے جائیں۔