ریکارڈ ٹیمپرنگ کیس: ایف آئی اے کی فرانزک رپورٹ عدالت میں پیش

اسلام آباد: سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے سابق چیئرمین ظفر حجازی کے خلاف ریکارڈ ٹیمپرنگ کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی جانب سے فرانزک رپورٹ عدالت میں پیش کردی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ظفر حجازی کی ریکارڈ ٹیمپرنگ کیس کے اخراج کی درخواست پر سماعت کی۔

عدالتی حکم پر ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) بشیر میمن اور ادارے کے ڈائریکٹر یاسین فاروقی عدالت میں پیش ہوئے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل حسیب چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے کی جانب سے ریکارڈ ٹیمپرنگ سے متعلق فرانزک رپورٹ عدالت میں پیش کردی گئی۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے ایس ای سی پی کی ایک افسر ماہین فاطمہ نے ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کی، جنہیں بعد میں وعدہ معاف گواہ بنایا گیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ساری بات ماہین فاطمہ کے گرد گھوم رہی ہے، جس نے ٹیمپرنگ کی اسے گواہ بنادیا گیا۔

ایف آئی اے کے تفتیشی افسر طاہر تنویر کا کہنا تھا کہ گواہان کے مطابق ماہین فاطمہ پر ریکارڈ میں ٹیپمرنگ کے لیے دباؤ تھا جس کے لیے اس وقت چیئرمین ایس ای سی پی نے کمشنر ایس ای سی پی کے ذریعے پیغام بھجوایا تھا۔

تفتیشی افسر نے کہا کہ ٹرائل کورٹ میں چالان پیش کر دیا، تاہم عدالت جو فیصلہ کرے گی اس من و عن قبول کیا جائے گا۔

سماعت کے دوران ظفر حجازی کے وکیل حسن شاہ نے عدالت کو بتایا کہ ریکارڈ میں رد و بدل کرنے کے حوالے سے سابق چیئرمین ایس ای سی پی کی طرف سے کوئی تحریری ہدایات جاری نہیں کی گئیں تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایس ای سی پی میں تمام معاملات کمشنرز کی مشاورت سے طے ہوتے ہیں جبکہ چوہدری شوگر ملز کے ریکارڈ سے متعلق کوئی میٹنگ ہی نہیں ہوئی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت 7 مارچ تک ملتوی کردی۔

[pullquote]ریکارڈ ٹیمپرنگ کیس[/pullquote]

پاناما پیپرز کیس کے سلسلے میں شریف خاندان کے مالی معاملات کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے الزام عائد کیا تھا کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے چیئرمین ظفر الحق حجازی چوہدری شوگر ملز کے ریکارڈ میں ہیر پھیر میں ملوث تھے۔

سپریم کورٹ نے ظفر حجازی پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کرنے اور رپورٹ جمع کرانے کے لیے ایف آئی اے کو ہدایات جاری کی تھیں۔

رواں برس 19 جون کو سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو ہدایت دی تھی کہ وہ یہ معاملہ ایف آئی اے کو بھجوائیں۔

ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن ونگ کے ڈائریکٹر مقصود الحسن کی سربراہی میں ریکارڈ ٹیمپرنگ کے الزامات کی تحقیقات کرنے والی چار رکنی ٹیم نے اپنی تحقیقات کا آغاز 23 جون کو کیا تھا جسے 30 جون تک مکمل کر لیا گیا۔

چار رکنی ٹیم نے اپنی رپورٹ 8 جولائی کو سپریم کورٹ میں جمع کرائی جس میں یہ سامنے آیا کہ چیئرمین ایس ای سی پی چوہدری شوگر ملز کیس کے ریکارڈ میں تبدیلی کے ذمہ دار ہیں۔

ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم کی 28 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں جے آئی ٹی کے لگائے گئے الزامات کی تائید کی گئی۔

ایف آئی اے رپورٹ پر عدالت نے ظفر حجازی کے خلاف اسی روز ایف آئی آر درج کرنے کا حکم جاری کیا اور اٹارنی جنرل کو حکم پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت دی تھی۔

بعد ازاں ظفر حجازی نے ضمانت کی درخواست جمع کروائی، جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی 17 جولائی تک کی عبوری ضمانت منظور کرلی۔

عبوری ضمانت کے اختتام پر 17 جولائی کو اسپیشل جج سینٹرل نے ریکارڈ ٹیمپرنگ کیس میں ان کی 5 روز (یعنی 21 جولائی تک) کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی اور بعد ازاں 21 جولائی کو اسپیشل جج سینٹرل کی جانب سے درخواست ضمانت مسترد کیے جانے کے بعد ظفر حجازی کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

گزشتہ برس 27 اکتوبر کو مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران ایف آئی اے کی خصوصی عدالت نے ایس ای سی پی کے سابق چیئرمین ظفر حجازی کو شریف خاندان کی چوہدری شوگر مل کے ریکارڈ سے متعلق ٹمپرنگ کیس میں فرد جرم عائد کی تھی۔

خیال رہے کہ ایس ای سی پی سابق چیئرمین ظفرحجازی کی جانب سے ایف آئی اے کی خصوصی عدالت میں مقدمہ خارج کرنے کی اپیل دائر کی تھی جسے عدالت نے گزشتہ برس 10 نومبر کو مسترد کردیا تھا۔

درخواست مسترد ہونے کے بعد ظفر حجازی نے ایف آئی اے کی خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے