بڑی ہی کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی

نواز پارٹی صدارت سے بھی فارغ۔ 28جولائی کے بعد کئے گئے فیصلے کالعدم۔

ہمارا خیال ہے کہ ہمارے ہاں سیاست کو اصل مفہوم کے ساتھ کیا گیا نہ پیش کیا گیا، جبکہ اسے بھی گویا دیگر پیشوں، کاروباروں، ملازمتوں کی مانند سمجھا جاتا رہا اور یہ معمول 70برس سے ہنوز برقرار ہے جبکہ سیاست انسانوں کو ایک اچھی منزل کی جانب لے جانے کا رہنما عمل ہے، جس میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے سو بار سوچ لینا چاہئے کہ ریاست کے تمام افراد کے حقوق پورے کرنا ہوں گے۔ ہمارے سامنے اس تصویر کا تاریک رخ اتنا روشن ہے کہ یہ میدان صرف طالع آزمائوں کے لئے مختص ہو گیا۔ ایک ہی کوالی فکیشن سے ہماری سیاست کے قبلہ کا تعین باآسانی کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی کتنا ہی قابل ہو، لائق فائق ہو، اگر سرمایہ نہیں رکھتا تو اس میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ ریاست کو سیاست چلاتی ہے اور اس کی چال ڈھال کو راہ راست پر رکھنے کے لئے پارلیمان اور عدلیہ ذمہ دارہوتی ہے۔ یونان کے دانشوروں کے سیاست بارے فکر کو کوٹ تو کیا جاتا ہے مگر عملاً ’’میکاولین‘‘ سیاست ہی اکثر و بیشتر رائج ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جذبات، خدمت پر غالب رہتے ہیں۔

اچھی جوشیلی تقریر، بڑے جلسے ، عوام کے نام کا فقط وِرد اور ذات کو پیش نظر رکھنے کا ذوق شوق، یہی ہے آج کل رخت ِ سفر میرِ کارواں کے لئے۔ ہمیں نوازشریف کے ادوار ِ حکومت پرتبصرہ کرنے کی ضرورت ہے اور نہ عدلیہ کےفیصلوں پر کمنٹس کرنے کی اجازت۔ البتہ ہم اتنا ضرور سمجھ سکتے ہیں کہ ریاست کے اجزائے ترکیبی ہی اگر یکجا و یکجان ہوں تو ہر حکومتی عمل میں عدل اور اعتدال کا عنصرغالب رہتاہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کسی بھی سربراہ ِحکومت کو کہ کاروبار ِ حکومت خراج کا گھر ہے۔ اس لئے وہ قیصری کو قریب نہ آنے دے۔ عوام کے دیئے ہوئے پیسے، جن میں ان کا خون پسینہ شامل ہوتا ہے، انہیں صرف اور صرف عوام کی ترقی و بہبود پر خرچ کرنا جائزہے۔ تاریخ میں ایسے کردار بھی ملتے ہیں کہ جنہیں حکمران بنانے کے لئے منت سماجت کی گئی اور انہوں نے جنگل کی طرف دوڑ لگا دی۔ وہ جانتے تھے کہ بڑی ہی کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی۔

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ کسی فیصلے میں نواز شریف کو گاڈ فادر یا سسلین مافیا نہیں کہا۔ حیرانی ہے کہ کیا میڈیا کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ سپریم کورٹ نے اپنےکسی فیصلے میں گاڈ فادر اور سسلین مافیا کے الفاظ استعمال ہی نہیں کئے اور حزب اقتدار کو یہ مفروضہ ناگوار جبکہ حزب ِ اختلاف کو خوشگوار لگا کہ ان دو لفظوں پر ہی تو بڑے بڑے معرکتہ الآرا جلسے ہوئے۔ ہر ٹاک شو میں، ہر ٹویٹ میں واویلا ہوا اور جسٹس کھوسہ نے ایک دم کہہ دیا کہ کسی فیصلے میں یہ الفاظ شامل ہی نہ تھے۔ اس سے ہم اپنی پوری اجتماعی سوچ کی سمت کا تعین کرسکتے ہیں کہ وہ کس قدر بلاتحقیق کسی بھی خارزار میں اُتر سکتی ہے۔

اب یہ ہر فریق کا فرض ہے کہ تحقیق کرے کہ یہ بات کس نے ایجاد کی؟ کس نے پھیلائی اور اسے اُچک کر اپنی گفتار کی زینت بنانے والوں کی فہم و فراست پر شہنائیاں بجائی جائیں کہ وہ صرف اختلاف پرست ہیں چاہے اس کی کوئی بنیاد ہی نہ ہو۔ وہ تمام افراد اور میڈیا جس نے اس ان کہی کو بیان کیا، اس پر بڑا طومار باندھا، ان پر سوالیہ نشان اتنا نمایاں ہے کہ جسے دیکھ کر عوام جن کا نام ان دنوں بہت زیادہ استعمال کیا جارہا ہے، ان کا اعتبار و اعتماد اب کس پر کیونکر قائم ہوگا؟ ہر سنی سنائی کو بلاتحقیق اس کثرت سے قبول کرنا بہت بڑی تہمت، بہت بڑے پیمانےپر لگانے کے مترادف ہے۔ جسٹس کھوسہ نے وضاحت کی کہ جب نہال ہاشمی نے انتہائی دھمکیاں دیں تو کورٹ نے تب ان کی دھمکیوںکو سن کر کہا کہ اس طرح کی باتیں تو سسلین مافیا کاوتیرہ تھا۔ یہ نہایت ہی افسوسناک بات ہے کہ

؎وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

عمران خان سے، پی پی کے لیڈران اور دیگر ہر شعبے کے دانشمندان سے مودبانہ افسوس کے ساتھ گلہ ہے کہ کیوںان کہی کو کہی اور انہونی کو ہونی بنا کر عوام کا ایک مائینڈ سیٹ بنایا گیا؟ جس سے قومی سطح پر بہت بڑا نقصان ہوسکتاہے۔

ناترس دشمن اور ہم جیسے نادان

ہم تو اس بھولی سے بھی بڑھ کر بھولے نکلے جس نے کہا تھا ’’میں اتنی بھی بھولی نہیں‘‘اک تنکا سیاق و سباق سے محروم زمین سے اٹھایا اور اس کا شہتیر بنا دیا۔ یہ وہ طرز ِ عمل ہے جس میں ہم من حیث القوم ملوث ہیں۔ آج مملکت ِ خداداد پاکستان میں ایک ایسی فضا ہم نے خود ہی قائم کردی ہے کہ جو ہمارے ازلی دشمن کے لئے فصل بہار ہے اور اس نے کنٹرول لائن پر مقبوضہ کشمیر میں بلکہ پوری دنیا میں ہمارے خلاف ظالمانہ کارروائیوںکی انتہا کردی ہے۔ ہمارے ہاں عہدے صرف عیش و نشاط کا سامان ہیں۔ ہمارے سفیران وطن ملکوںملکوں پاکستان کےلئے، کشمیر کے لئے اورتارکین وطن کے لئے کیا کر رہے ہیں؟ اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ ہم تو میڈیا کے لوگ ہیں اپنی بات کرسکتے ہیں کہ اپنی ساکھ بربادہونے سے بچا لیں۔

اپنے کالموں، خبروں، ٹاک شوز، تجزیوں کو تحقیق کی کٹھالی میں اچھی طرح پکاکر چھان پھٹک کر پوری صحافتی تحقیق کے ساتھ قوم کے سامنے رکھیں ورنہ سار ےبیانئے اس انداز سے مرتب ہوں گے کہ تباہی و بربادی کا یہ ایک ہی بیانیہ بن جائیں گے اور خدانخواستہ ہم اپنے ہی لائے ہوئے طوفان میں خس و خاشاک کی طرح اڑ جائیں گے۔ یہ اختلافات، یہ سیاسی کشتیاں، یہ مقابلہ بازیاں کہاں نہیں مگریہ تو نہیں کہ ہم اپنے ہی خنجر سے خودکشی کرلیں۔ آج قومی یکجہتی، سیاست برائے بقائے پاکستان اور ذاتی اغراض سےپاک طرز ِ فکر وعمل کی جتنی ضرورت ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی کہ پہلے ہم کبھی ایسے بھی نہ تھے، اب یہ کیا ہو گیا کہ عوام جن کا نام بری طرح استعمال ہو رہا ہے اس کے دماغ میں اپنی اپنی چپ ڈال کر پاکستانیت کی چپ نکالی جارہی ہے۔ کسی بھی کرتا دھرتا کو کچھ نہیںہوگا مگر یہ پاک سرزمین اور اس کے غریب عوام رگڑے جائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے