کراچی کا نکسر اسکول اور ہیرا پھیری

نکسر کراچی کے، بلکہ شاید پاکستان کے بہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے۔ اس کے مالک ندیم غنی بہت پڑھے لکھے اور شاندار انسان ہیں۔ امریکا میں تعلیم پائی، ایک عرصہ بزنس کیا۔ پھر پاکستان میں اعلیٰ درجے کا تعلیمی ادارہ بنانے کا عزم کیا۔ کراچی واپس آگئے۔ انھوں نے محنت کی۔ قدرت نے ان کا ساتھ دیا۔
نکسر کالج میں داخلہ ملنا آسان نہیں۔ لیکن داخلہ ہوجائے تو بچے کا شاندار مستقبل یقینی ہوجاتا ہے۔ پڑھانے والوں میں سفید فام، سیاہ فام شامل ہیں۔ پاکستانی ٹیچر سب غیر ملکی جامعات سے سند یافتہ۔ ہر ہفتے امریکا، یورپ، مشرق بعید کی کسی یونیورسٹی کے نمائندے آتے ہیں۔ وہ ذہین بچوں کو دعوت دیتے ہیں کہ نکسر سے نکل کر ہمارے پاس آئیں۔ اسکالرشپ کے طریقے بھی بتاتے ہیں۔ اے لیول کے بعد بیشتر بچے غیر ملکی یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں۔

نکسر غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی پیچھے نہیں۔ کالج میں ٹرافیوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ تقریری مقابلے، کھیلوں کے مقابلے، ماڈل یونائیٹڈ نیشن، سب جیت جاتے ہیں۔
کالج کامیاب ہوا تو ندیم غنی نے اسکول کھولنے کا سوچا۔ پہلے او لیول کی کلاسیں رکھیں۔ پھر پیچھے گئے اور ساتویں آٹھویں شروع کی۔ نئے تعلیمی سال سے پرائمری اسکول شروع ہوجائے گا۔

میری بیٹی نکسر کالج میں اے لیول کررہی تھی۔ بیٹا نکسر اولیول کا طالب علم تھا۔ میری تنخواہ کا بڑا حصہ دونوں کی تعلیم پر صرف ہوجاتا تھا۔ ایک بچے کی ایک مہینے کی فیس پینتیس ہزار کے لگ بھگ۔ اسکول سے ملنے والی کتابوں کے پیسے الگ، نوٹس کے الگ، ونٹر جیکٹ کے الگ، ٹیبلٹ کے الگ، سیکورٹی کا خرچ، جی ایس ٹی بھی ہمارے سر، ماڈرن اسکول ایک ساتھ دو یا تین مہینے کی فیس لیتے ہیں اور کمر توڑ دیتے ہیں۔
میری بیٹی اکنامکس، سوشیالوجی اور لٹریچر پڑھ رہی تھی۔ بیٹا اولیول سبجیکٹس کے علاوہ جرمن زبان پڑھ رہا تھا۔ ندیم غنی او لیول کی بزنس کلاس خود لیتے ہیں۔ کلاس کے دوران بچوں سے آزمائشی سوال پوچھتے ہیں اور جو درست جواب دیتا ہے، اسے انعام میں چپ دیتے ہیں۔ حسین ہر ہفتے مجھے ایک چپ دکھاتا تھا۔
دسمبر کے آغاز میں فیس واؤچر آگئے۔ امریکا کا ویزا اپلائی ہوچکا تھا۔ ویزا یقینی ہونے کے باوجود میں نے بچوں کی تین تین مہینے کی فیس ادا کردی۔ یعنی کوئی ڈھائی لاکھ روپے۔

ویزا آتے ہی اسکول اور کالج کو مطلع کردیا کہ سردیوں کی چھٹیوں کے بعد بچے نہیں آئیں گے۔ میں خود کالج جاکر ندیم غنی صاحب سے ملا۔ انھوں نے کرن سے ہنسی مذاق کیا۔ حسین کی تعریف بھی کی اور مضحکہ بھی اڑایا۔ کرن سے کہا کہ تمھارا بھائی بدھو ہے، امریکا میں اس کا خیال رکھنا۔

میرے بچوں نے ویزا دیکھنے کے باوجود محنت کرکے مڈ ٹرم امتحان دیے اور رزلٹ سے پہلے جنوری کے آغاز میں ہم امریکا آگئے۔

یہاں بچوں کا داخلہ آسان ہے۔ آپ مقامی ہیں یا غیر ملکی، قانونی ہیں یا غیر قانونی، محکمہ تعلیم کو کوئی پریشانی نہیں۔ وہ بچہ فورا داخل کرلے گا۔ بلکہ محکمہ تعلیم کا افسر بتائے گا کہ گھر کے قریب کون سے اسکول جائیں اور کون سے سبجیکٹ پڑھیں۔ وہ اسکول کو ہدایت نامہ بھی بھیجے گا۔ ہر ممکن سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
اسکول کی فیس صفر ڈالر، کتابیں مفت، یونیفارم کچھ نہیں، ہر بچے کو پہلے دن مفت لیپ ٹاپ، بس کی فیس صفر ڈالر، ویکسی نیشن کی فیس صفر ڈالر۔

اسکول نے بس اتنی فرمائش کی کہ اگر مڈ ٹرم نتیجے کی نقل مل جائے تو اچھا ہے۔ ارے، یہ کیا مسئلہ ہے! ابھی لیجیے۔

میں نے نکسر کو ای میل کی۔ خوب صورت انگریزی میں اسکول اور ندیم غنی صاحب کی تعریف کی۔ عاجزانہ انداز میں اپنا اور بچوں کا تعارف کروایا۔ آسان زبان میں درخواست کی کہ مڈ ٹرم نتیجہ ای میل کردیں تو ازحد مہربانی ہوگی۔

ابھی ابھی جواب آیا ہے کہ اگلی سہہ ماہی کی فیس ادا کردیں ورنہ ہم مارکس شیٹ نہیں دیں گے۔

ندیم غنی صاحب! آپ کا قصور نہیں، آب و ہوا کا مسئلہ ہے۔ جس ملک میں تعلیم منافع بخش کاروبار بن جاتی ہے، وہاں بھلا آدمی زیادہ دیر بھلا نہیں رہ سکتا۔ بزنس کا سوچنا پڑتا ہے۔ بنیا بننا پڑتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے