پاکستان بحریہ کے سابق سربراہ اور پاکستان شپنگ نیشنل شپنگ کارپوریشن کے سابق چیئرمین ایڈمرل منصور الحق بدھ 21فروری 2018 کو شب دو بجے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کی نماز جنازہ شارجہ کی مسجد الصحابہ میں ادا کی گئی۔ ان کے پس ماندگان میں بیوہ، دوبیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ ایڈمرل منصورالحق گردوں کے عارضے میں مبتلا رہے، ان کا انتقال دل کا دورہ پڑنے سے ہوا۔ حیرت انگیز طور پر یہ خبر پاکستانی میڈیا میں کہیں جگہ نہیں پاسکی۔ ایڈمرل منصور الحق کے انتقال کی خبر جب ایک ذاتی ذریعے سے حاصل ہوئی تو ماضی کی بہت سی باتیں یاد آئیں۔
ان کا نام میڈیا میں ہمیشہ 1994میں اگسٹا آبدوز اور ۱۹۹۵ میں پی این ایس سی کے لیے تین جہازوں کی خریداری میں خرد برد کے حوالے سے آتا رہا۔ 1997میں انہیں عہدے سے ریٹائرڈ کردیا گیا۔ نیب نے انہیں طلب کیا لیکن وہ امریکا چلے گئے۔ نواز حکومت ختم ہوئی، جنرل مشرف اقتدار پر قابض ہوئے اور بڑی شد و مد سے ایڈمرل منصور الحق کا تعاقب کیا۔ 2001میں امریکا سے انہیں گرفتار کروا کر پاکستان لایا گیا، صدر مشرف نے اس سلسلے میں انتہائی سرگرم کردار ادا کیا۔ یہاں نیب نے انہیں گرفتار کرکے ہتھکڑیاں لگائیں۔ 2004میں انہیں احتساب عدالت نے سات سال قید اور دو کروڑ روپے جرمانے کی سزا سنایئ گئی۔ وہ طویل عرصہ گرفتار رہے۔ احتساب عدالت کی سزاپہلے سندھ ہائی کورٹ بعدازاں سپریم کورٹ سے منسوخ قرار پائی۔ منصور الحق نے بعد ازاں نیب کو 45کروڑ 75لاکھ روپے ادا کیے جس کے بعد ان کے خلاف مقدمات ختم کردیے گئے۔
آگسٹا آبدوز اسکینڈل یا کراچی افیئر کے نام سے مشہور ہونے والے اس معاملے میں فرانس کے وزیر اعظم ایڈوارڈ بلادور اور ان کے قریبی ساتھی اور سابق صدر فرانس نکولس سرکوزی اور پاکستان کے سابق صدر آصف زردای کے علاوہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کے بھائی عامر لودھی کا بھی نام شامل تھا۔
ایڈمرل منصور الحق نے 2013 میں پنشن اور دیگر مراعات کی بحالی کے لیے حکومت پاکستان کے نام مقدمہ بھی دائر کیا۔ ان کی وفات کی خبر میڈیا میں کیوں نہ آسکی؟ وہ پاکستان بحریہ کے سربراہ تھے، بھلے سے ان کا کردار متنازعہ رہا ہو لیکن بہر حال یہ ایک خبر تو تھی، جو شاید ان کے اپنے ادارے کی جانب سے بھی جاری نہیں کی گئی۔ ایڈمرل منصور الحق کی موت کی خبر سنتے ہی ایک اور خبر یاد آئی۔
غالباً 2014میں سابق صدر مشرف نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ان کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا جائے۔ لیکن یہی پرویز مشرف جب برسر اقتدار تھے تو پاک بحریہ کے سربراہ کے خلاف مقدمہ سویلین عدالتوں میں چلایا گیا، اسے ہتھ کڑیاں لگائی گئیں۔ منصور الحق پر بدعنوانی کے مقدمات تھے اور پرویز مشرف آئین کی پامالی کے ملزم۔ منصورالحق کو سزا ہوئی تو یہ نہیں کہا گیا کہ ان کے ادارے کو کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا ہے لیکن مشرف کے ٹرائل کے مطالبے پر ادارے کا وقار مجروح ہونے کی دلیل دی گئی۔ مشرف آج ملک سے باہر ہیں، کبھی اپنے ادارے اور کبھی قوانین کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ منصور الحق نے اپنے کردہ و ناکردہ گناہوں کی سزا کا سامنا کیا اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔ نہ جانے کیوں یہ خبر پڑھ کر یہ سوال دل و دماغ میں گردش کرتا ہے کہ بدعنوانی کے خلاف اپنی افواج میں شامل اہم ادارے کے سربراہ کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنے والا بہادر، ملک واپس آکر اپنے ادارے اور منصب کی لاج رکھے گا؟ پھر خیال آتا ہے کہ کسی کی موت کی خبر سننے کے بعد ایسی باتیں سوچنے کا کیا فائدہ، ہاں ’’دیکھے اگر جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو‘‘