اے مرے لخت جگر،پیدا نہ ہو

بدھ کی شام کے سپریم کورٹ کے نواز شریف کے بارے میں دیئے جانے والے فیصلے کے بعد اب کسے اتنی مہلت ہے کہ وہ ایک نومولود کی اکھڑتی سانسوں کی طرف متوجّہ ہو۔ ایک سیاسی، آفت خیز غلغلے میں نہ جانے کتنی آوازیں ڈوب جاتی ہیں۔ لیکن میں پھر بھی آج ایک ماہ سے کم عمر کے ان پھول بچّوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ جن کی غیرمعمولی تعداد میں ہونے والی اموات نے پاکستان کو ایک شرمناک فہرست میں پہلے نمبر پر ٹانگ دیا ہے۔ یہاں شاید سولی پر چڑھا دینے کا استعارہ بھی مناسب ہو۔ ہوا یہ کہ منگل کے دن یہ خبر آئی کہ اقوام متحدہ کی تنظیم یونیسیف نے اپنی رپورٹ میں یہ بتایا کہ نومولودوں کیلئے پاکستان دنیا کا سب سے خطرناک ملک بن گیا ہے۔ بچّوں کی صحت کے حوالے سے یہ مانا جاتا ہے کہ ان کی زندگی کا پہلا مہینہ بلکہ پہلے 28؍دن بہت اہم ہوتے ہیں۔

پسماندہ معاشروں میں تمام بچّے یہ سرحد عبور نہیں کر پاتے اور باقاعدہ اعداد وشمار کے پیمانے پر یہ حساب رکھا جاتا ہے کہ ان بچّوں کی اموات کا تناسب کیا ہے۔ وہ اس طرح کہ زندہ پیدا ہونے والے ایک ہزار بچّوں میں سے کتنے ایک ماہ کی عمر سے پہلے دم توڑ دیتے ہیں؟ پتہ چلا کہ پاکستان کا اسکور سب سے زیادہ ہے۔ سمجھنے کیلئے یہ جان لیں کہ 22؍بچّوں میں سے ایک اپنی زندگی کے پہلے 28؍دن بھی جی نہیں پاتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو بچّے ایک ماہ کی عمر سے زیادہ جی لیتے ہیں وہ جیسے پار اتر جاتے ہیں، بالکل نہیں۔ پاکستان کی کہانی یہ ہے کہ پانچ سال سے کم عمر بچّوں کی 45؍فیصد تعداد کمزور جسم اور کمزور ذہن کے ساتھ پل رہی ہے۔ غذائیت کی کمی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ حاملہ خواتین کی صحت کا اثر بچّوں پر پڑتا ہے۔

اب یہ جو یونیسیف کی اس ہفتے کی رپورٹ ہے، اس کی تفصیلات میں جانے کی گنجائش نہیں۔ بس یہ دیکھ لیں کہ پاکستان پہلے نمبر پر ہے۔ دوسرے نمبر پر سینٹرل ایفریکن ری پبلک ہے، یعنی افریقہ کا ایک ہارا ہوا ملک اور اس کے بعد افغانستان اور صومالیہ کھڑے ہیں۔ دل تھام کر اس حقیقت کو برداشت کریں کہ اس خصوصی پیمانے پر ہم افغانستان اور صومالیہ سے بھی بدتر ہیں۔ گویا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے سب سے بڑے ملک ہیں اور ہماری باقاعدہ فوج بھی دنیا کی دس بڑی فوجوں میں سے ایک ہے۔ ہندوستان سے اپنا موازنہ ہم کرتے رہتے ہیں۔ اس کا حال بھی بہت اچھا نہیں ہے البتہ وہ بارہویں نمبر پر ہے۔ اس کیلئے بھی یہ ندامت کی بات ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کے غریب پڑوسیوں یعنی بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان سے بھی پیچھے ہے۔ اس بدنصیب علاقے میں غریب ملک سماجی ترقی میں طاقتور،ایٹمی طاقتوں سے آگے ہیں۔

میں نے اس کالم کے آغاز میں کہا کہ سیاست کے غلبے نے کیسے معاشرے کی صورتحال کو میڈیا کی توجّہ سے محروم کر دیا ہے۔ یہ میرا وہ دکھ ہے جس کا میں بار بار اظہار کرتا ہوں لیکن میں اس بات کا اقرار بھی کرتا ہوں کہ موجودہ سیاسی کشمکش اور قومی اداروں کے درمیان تنائو سے پاکستان میں جمہوریت کچھ ایسے ہی خطرات سے دوچار ہے کہ جن کا سامنا ہمارے بچّوں کو ہے یعنی وہ کمزور ہے اور اسے مناسب غذا نہیں مل پا رہی۔ آپ کہیں گے کہ یہ تو ایک زبردستی کی تمثیل ہے لیکن میں یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ہماری سماجی بدحالی کا کوئی نہ کوئی تعلّق ان جمہوری اقدارسے ضرور ہے کہ جو ایک خوشحال معاشرے کیلئے ناگزیر ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اتنے برسوں بعد بھی ہم اپنی کئی پیدائشی کمزوریوں کا علاج نہیں کر پائے ہیں۔

جہاں تک بچّوں کی صحت کا سوال ہے تو اس کا رشتہ ملک کے مجموعی حالات سے ہے۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ ابھی تین ہفتے قبل ہی میں نے اس موضوع پر اپنا کالم لکھا تھا۔ (بچّہ انتظار نہیں کر سکتا۔ 3؍فروری 2018) تب بھی گزرے ہوئے ہفتے میں شائع ہونے والی چند خبروں کا ہاتھ تھام کر میں نے اپنی بات کہنے کی کوشش کی تھی۔ میں نے 1982میں پہلی بار چین دیکھنے کا ذکر کیا تھا کہ جہاں مجھے لگا کہ ایک مشکل زندگی کا بوجھ اٹھانے والے عام چینی شہری اپنے بچّوں کو کیسے پیار اور توجّہ سے پالتے تھے۔ اب یہ دیکھئے کہ اس ہفتے بھی میں نے ’نیویارک ٹائمز‘میں ایک ایسا مضمون پڑھا ہے جو آج کے چین میں بچّوں کی اہمیت پر ایک دلچسپ تبصرہ ہے۔ سرخی کچھ ایسی ہے کہ ’چین میں زیادہ بچّے کیوں پیدا نہیں ہو رہے‘یہاں یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ چین نے برسوں پہلے ہر شادی شدہ جوڑے پر یہ پابندی لگا دی تھی کہ وہ صرف ایک بچّہ پیدا کر سکتے ہیں۔

پوری دنیا حیران تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ایسا یہ صرف چین جیسے معاشرے میں ہی ممکن ہے کہ جہاں نظم و ضبط اور حکمرانوں کی اطاعت کی ایک تاریخی روایت قائم ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک نے یوں اپنی آبادی کو قابو میں رکھنے کا منصوبہ بنایا۔ ایک بچّے کی پالیسی نے کیا رنگ دکھائے اور اس کے معاشرتی اثرات کیا مرتب ہوئے؟ اس پر تحقیق اور تبصروں کی بھرمار ہو گئی۔ لڑکوں کی خواہش میں بے شمار خاندانوں نے کیا کیا جتن کئے، اس کا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چند سالوں میں عورتوں کی تعداد مردوں سے کم ہو گئی پھر یہ ہوا کہ 2015میں چین نے عام شادی شدہ جوڑوں کیلئے صرف ایک بچّے کی پابندی ختم کر دی۔

اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ آبادی دھیرے دھیرے بوڑھی ہوتی جارہی تھی اور ایک بڑھتی، پھیلتی معیشت کو نوجوان کارکنوں کی ضرورت تھی۔ آج کل چین کی حکومت کی کوشش یہ ہے کہ پڑھی لکھی اچھے عہدوں پر کام کرنے والی خواتین کے زیادہ بچّے ہوں کیونکہ توقع یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بہتر پرورش کریں گی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ایسی خواتین ماں بننے کیلئے تیار نہیں ہیں اور حکومت کی طرف سے ان کیلئے کئی آسانیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ حکومت یہ بھی نہیں چاہتی کہ خواتین شادی سے پہلے ہی ماں بن جائیں کیونکہ شادی اور خاندان کو معاشرے کے استحکام کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حکمراں آبادی اور انسانی وسائل کی ماہرانہ منصوبہ بندی کرتے رہے ہیں۔ہم لیکن ایک اور دنیا میں رہتے ہیں۔ پاکستان پر بڑھتی ہوئی آبادی کا بوجھ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے اور قومی سلامتی سے منسلک اس مسئلے پر ہماری حکومتوں نے کبھی کوئی خاص توجّہ نہ دی۔ ہمارے ملک میں نوجوانوں کی اکثریت اس لئے ایک خطرہ بنتی جا رہی ہے کہ صحت، تعلیم، روزگار اور دوسری تمام ایسی سہولتوں کی کمی ہے جن کی ایک بڑھتی ہوئی آبادی کو ضرورت ہے۔ ہمارے بچّے جن حالات میںپل رہے ہیں اس کی تصویر ہمارے سامنے ہے۔ ٹیگور کا ایک مقولہ شاید آپ نے بھی پڑھا یا سنا ہو گا کہ ہر نومولود اپنے ساتھ یہ پیغام لاتا یا لاتی ہے کہ خدا ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا ہے۔

بات دل کو لگتی ہے البتہ یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ نومولود کہ جو زندگی کی علامت بن کر دنیا میں آتا ہے اپنی ولادت سے چند دن بعد ہی اس دنیا سے چلا جائے یا جئے تو بے بسی کے عالم میں تو یہ کس کا قصور ہے؟ ظاہر ہے کہ آبادی کی منصوبہ بندی حکمرانوں کی ذمہ داری ہے، اس کے بارے میں گفتگو تو ہوتی رہتی ہے، عملی اقدامات نہیں ہو پاتے،تو لیجئے اس ہفتے کی ایک اور خبر۔پاکستان میں عالمی بینک کے سربراہ نے ایک سیمینار میں کہا کہ ہماری بڑھتی ہوئی آبادی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں ایک رکاوٹ بنتی جا رہی ہے۔ دل دہلانے والے اعداد وشمار موجود ہیں۔ عالمی بینک کے نمائندے کے مطابق اگلے دس سال اس سلسلے میں بہت اہم ہیں اور یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ پاکستان کدھر جا رہا ہے؟

یہ خبر پڑھ کر مجھے شوکت تھانوی کی ایک نظم یاد آ گئی۔اس کا عنوان تھا ’’فیملی پلاننگ‘‘اور اس کا پہلا شعر یہ تھا:

اے مرے بچّے مرے لخت جگر پیدا نہ ہو
یاد رکھ پچھتائے گا تو میرے گھر پیدا نہ ہو

اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ شوکت تھانوی کی وفات کو بھی 50؍سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا اور جو کچھ انہوں نے کہا تھا آج بھی برمحل ہے۔ گو اس میں شوکت تھانوی کی شوخی اور طنز کی جگہ ایک حسرت ناک تلخی محسوس کی جا سکتی ہے۔ مزاح کے انداز میں ایک دوسرا شعر یاد آ گیا، سید ضمیر جعفری نے کہا تھا:


شوق سے لخت جگر، نور نظر پیدا کرو
ظالمو تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو

ہمارا معاملہ یہ ہے کہ گندم تو ہم کافی پیدا کرتے ہیں لیکن ہمارا نظام کچھ ایسا ہے کہ بے شمار بچّے اور بڑے بھی غذائی قلّت کے اسیر ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے