لاہور: سابق وزیراعظم نواز شریف کی پارٹی صدارت سے نااہلی کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی سے رائے ونڈ میں ملاقات کی اور پاکستان مسلم (ن) کے نئے صدر کے انتخاب سے متعلق دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ کوئی بھی نااہل شخص کسی سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں ہوسکتا، جس کے بعد نواز شریف کو اپنی جماعت کی صدارت سے ہٹا دیا گیا تھا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے قبل ہونے والی یہ ملاقات 3 گھنٹے تک جاری رہی، تاہم اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ملاقات کے دوران شریف برادران نے پارٹی کے نئے صدر، سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے پارٹی ٹکٹ معطل ہونے بعد کی صورتحال، شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں چلنے والے مقدمات سمیت قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے پنجاب کے بیورو کریٹ احد خان چیمہ کی کرپشن کیس میں گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
خیال رہے کہ (ن) لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس منگل کو لاہور میں منعقد ہوگا، جہاں نئے صدر کے انتخاب سے قبل مسلم لیگ (ن) کے قائم مقام صدر کو نامزد کیا جائے گا۔
اس حوالے سے کچھ نجی ٹی وی چینلز کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کی جانب سے نواز شریف کو کہا گیا ہے کہ پارٹی کے قائم مقام صدر کے طور پر انہیں منتخب کیا جائے تاہم سینئر پارٹی رہنماؤں نے ان اطلاعات کی تردید کی اور کہا کہ پارٹی آئین کے مطابق یہ تقرری صرف مرکزی سینئر نائب صدر کو ہی دی جاسکتی ہے۔
ان اطلاعات پر مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری اطلاعات اور وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی مشاہد اللہ خان نے میڈیا کو بتایا کہ ’پارٹی آئین کے مطابق نئے صدر کے انتخابی طریقہ کار سے منتخب نہ ہونے تک صرف سینٹرل ورکنگ کمیٹی کسی بھی ایک سینئر نائب صدر سے قائم مقام صدر بننے کی درخواست کرسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی کے نئے صدر کا انتخاب پارٹی کے ہی 1600 سے زائد جنرل کونسل کریں گے اور یہ عمل دفاتر میں ہوگا جن کا اجلاس 3 مارچ کو سینیٹ انتخابات کے بعد کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ اس وقت سینئر نائب صدر کی فہرست میں بلوچستان کے رہنما سینیٹر یعقوب خان ناصر، خیبرپختونخوا سے سرانجم خان، وزیر اعظم کے سابق مشیر سرتاج عزیز اور سردار چنگیز مری شامل ہیں۔
یاد رہے کہ سینیٹر یعقوب خان ناصر نے سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017 کے پاناما فیصلے کے بعد بھی مسلم لیگ (ن) کے قائم مقام صدر کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔
تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) کے الیکشن کمیشن کے رکن صوبیدار نیاز خان نے وفاقی وزیر کے خیالات سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ سینئر نائب صدور میں سے کسی ایک کو صرف اس وقت منتخب کیا جاتا ہے جب پارٹی صدر خود انہیں اپنا متبادل بنائیں لیکن یہاں سینٹرل ورکنگ کمیٹی کو فہرست سے باہر جانا پڑے گا۔
یاد رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا قیام 1990 میں آیا تھا اوراس کے بعد سے نواز شریف کے علاوہ شہباز شریف واحد شخص ہیں، جنہوں نے پارٹی سربراہ کی نشست کو مکمل مدت کے لیے سنبھالا ہے اور 2002 سے 2011 کے درمیان نواز شریف کی جلا وطنی کے باعث 3 مرتبہ پارٹی کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے ایک گروپ پارٹی سربراہ کے فیصلے کو مارچ کے وسط تک ملتوی کرانے کی کوششوں میں مصروف ہے تاکہ اس وقت تک نواز شریف کی پوزیشن واضح ہوجائے کہ آیا انہیں بدعنوانی کے مقدمات میں رہا کیا جاتا ہے یا عدالت انہیں قید کی سزا دیتی ہے۔
لیگی گروپ کی جانب سے یہ خیال کیا جارہا ہے کہ اگر نواز شریف کو قید ہوجاتی ہے تو پارٹی فیصلوں میں ان کا اثر و رسوخ اہم حد تک کم ہوگا اور وہ پارٹی دفاتر میں زیادہ سے زیادہ ممبران کو بھرتی کرنے قابل ہوسکیں گے۔