مولانا غلام کبریا شاہ اور مولانا احمد سعید ہزاروی

::: آہ ، مولانا سید غلام کبریا شاہ :::

گزشتہ روز گوجرانوالہ کے نواحی قصبہ مرالی والہ میں حضرت مولانا سید غلام کبریا شاہ صاحب ، جو کہ کچھ روز قبل جھنگ میں منعقدہ ” حق نواز شہید کانفرنس ” میں اسٹیج گرنے کی وجہ سے شدید زخمی ہوگئے تھے اور پھر علاج معالجہ کے دوران ہی انتقال فرما گئے ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

مرحوم بہت سی صفات حسنہ سے متصف عالم با عمل ، سادہ مزاج ، مذہبی و مسلکی کاموں کے شیدائی اور ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے ، اس لئے ان کی ناگہانی موت پر ہر دل ہی مضطرب ہوا ، میرے ساتھ بھی ان کا بڑا نیاز مندانہ اور دیرینہ تعلق تھا بلکہ عمر میں کافی تفاوت کے باوجود بھی دوستانہ ماحول میں باہم ہنسی مزاح اکثر چلتا رہتا تھا ، وہ امن کمیٹی گوجرانوالہ کے کافی عرصہ سے سرگرم ممبر بھی تھے ، ہفتہ عشرہ میں ایک دو بار ہمارے ہاں جامعہ نصرۃ العلوم میں ان کا چکر ضرور لگتا تھا ، احقر سے بعض راز و نیاز کی باتیں بھی کر لیا کرتے تھے ، ہر جلسہ اور جلوس ان کا اپنا ہوتا تھا ، اور جہاں جہاں اس دوران گئے ہوتے تھے اس کی کاروائی اور رپورٹ بھی ان سے مل جاتی تھی ، جب بھی ملتے تو علیک سلیک کے بعد ان کا پہلا سوال یہ ہوتا تھا کہ

” استاد جی کوئی نیا تحفہ آیا ہے تو عنایت فرما دیو ”
یعنی کوئی نئی کتاب چھپ کے آئی ہے تو مجھے بھی دیں ، تو میں انہیں مزاح میں کہتا کہ شاہ جی ” پہلی والی تو ابھی آپ نے پڑھی نہیں تو مزید کیا کرنی ہیں ؟ ” تو فوراً قسم اٹھا دیتے کہ نہیں میں نے ساری پڑھ لی ہیں ، پھر مجھے یقین دلانے کے لئے کسی کتاب کی خاص بات بتاتے کہ اس میں آپ نے یہ بات لکھی ہے ناں ، وہ ماہنامہ نصرۃ العلوم کے بھی روز اول سے قاری تھے ، حضرات شیخین کریمین رح کے شاگرد تو نہیں تھے لیکن شاگردوں سے بھی کہیں زیادہ ان سے عقیدت و احترام دل میں رکھتے تھے ، سن 1976 ع میں ” تحریک جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم ” میں بھی انہوں نے کافی قربانیاں دیں ، گرفتار ہوئے اور کئی ماہ تک قید و بند کی مشقتیں بھی برداشت کیں .

وہ بنیادی طور پر جمعیۃ علماء اسلام کے جذباتی کارکن تھے ، پھر سپاہ صحابہ رض کے قیام کے بعد سے تا دم واپسیں اسی جماعت کے پلیٹ فارم سے خدمات انجام دیتے رہے ، بلکہ بعض اہم جماعتی مناصب پر بھی فائز رہے ، طبیعت میں سادگی اور بے تکلفی نمایاں تھی ، جس کے متعلق بہت سے لطائف ہیں ، جو کسی دوسرے موقع کے لئے چھوڑتا ہوں ، مدت العمر مرالی والہ میں اپنی ہی قائم کردہ مسجد اور مدرسہ میں خدمات انجام دیتے رہے .

ان کی نماز جنازہ حضرت مولانا علامہ محمد احمد لدھیانوی صاحب نے پڑھائی اور ان کے صاحبزادہ کی ان کی جگہ دستار بندی بھی کی ، جنازہ میں بہت سے لوگوں نے شرکت کی ، احقر بھی برادرم محمد ریاض خان سواتی ، مولانا ظفر فیاض الرحمٰن اور میاں راشد صاحب کے ساتھ ان کی گاڑی میں سفر کرتے ہوئے جنازہ میں شریک ہوا ، دعا ہے کہ مولٰی کریم شاہ صاحب کی جملہ خدمات اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور خلد بریں میں انہیں جگہ عنایت فرمائے۔

::: مولانا احمد سعید ہزاروی کی رحلت :::

جس روز حضرت مولانا سید غلام کبریا شاہ کی وفات ہوئی ، اسی روز گوجرانوالہ کے ایک اور بزرگ اور معمر عالم دین حضرت مولانا احمد سعید ہزاروی بھی طویل علالت کے بعد رحلت فرما گئے ہیں ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

” اک دیا اور بجھا اور بڑھی تاریکی ۔”

مولانا ہزاروی ایک جید عالم دین ، باعمل مبلغ اور حق گو بزرگ انسان تھے ، ظاہری اور باطنی ہر دو لحاظ سے اللہ رب العزت نے انہیں حسن و جمال اور صفات و کمال سے نواز رکھا تھا ، سرخ و سفید رنگت ، نیل گون خوبصورت آنکھیں ، وجیہہ اور بارعب شکل اور قدرے دراز قد شخصیت کے سنجیدہ اور پر وقار مزاج کے متواضع آدمی تھے ، تقریباً نصف صدی تک کا طویل ترین عرصہ ” بٹ والی جامع مسجد ” باغبانپورہ گوجرانوالہ میں امامت و خطابت ، دینی ، رفاہی ، سماجی اور سیاسی خدمات بڑی تن دہی ، لگن اور خیر خواہی کے جذبہ سے انجام دیتے رہے ۔

ہمارے حضرات شیخین کریمین رح کے معتمد ، دیرینہ اور مخلص ساتھیوں میں ان کا شمار ہوتا تھا ، اکثر و بیشتر جامعہ نصرۃ العلوم میں ان سے ملاقات کے لئے تشریف لایا کرتے تھے ، اور ان سے بے تکلف گفتگو فرمایا کرتے تھے ، ہم بچپن سے انہیں اسی طرح کثرت سے آتے جاتے دیکھتے رہے تھے بلکہ ان سے اتنے مانوس ہو گئے تھے کہ ان کی آمد پر جب والد ماجد رح گھر سے ان کے لئے چائے لانے کے لئے فرماتے تو ان کی آمد کی اطلاع کے لئے ہم گھر جا کر ان کا صرف اتنا سا معصومانہ تعارف ہی کراتے کہ
” باہر مولوی بلا آیا ہے ”
یہ ان کی آنکھوں کی وجہ سے ان کا تعارف علاقہ بھر میں مشہور تھا ۔

وہ عیدین کی نماز بھی ہمیشہ میرے والد ماجد رح کے پیچھے جامع مسجد نور میں ہی آکر اداء فرمایا کرتے تھے ، احقر کے ساتھ بھی بڑی محبت و شفقت کا معاملہ فرماتے بلکہ گزشتہ ربع صدی سے ان کا یہ معمول رہا کہ وہ عیدین کی نماز میرے ہی پیچھے اداء فرماتے تھے ، عمر رسیدگی اور عوارضات کی بناء پر گزشتہ سے پیوستہ عید کی نماز سے پہلے جب ابھی میں تقریر کر رہا تھا ، دیکھا کہ وہ اپنے کسی عزیز کے کندھوں پر ہاتھ کا سہارا لئے تشریف لائے اور ہمیشہ کی طرح مسجد کے ہال میں بائیں جانب کی پچھلی صفوں میں بیٹھ کر تقریر سنے لگے ۔

انہیں ملکی سیاست میں بھی خاصی دلچسی تھی ، جوانی کے زمانہ میں بڑی گرجدار مسلکی اور سیاسی تقریریں کیا کرتے تھے ، اور اپنی خدا داد صلاحیتوں اور قربانیوں کی بناء پر ایک عرصہ تک وہ جمعیۃ علماء اسلام گوجرانوالہ شہر اور ضلع کے امیر بھی رہے ، مزاج تحریکی تھا ، اسی لئے تمام اہم ملکی تحاریک میں بھی پیش پیش رہے ، سن 1953 ع اور سن 1973 ع کی تحریک ختم نبوت ، سن 1976ع کی تحریک جامع مسجد نور ، سن 1977ع کی تحریک نظام مصطفٰی اور دیگر جملہ اہم ملکی تحریکوں میں ہمیشہ علماء حق کے قافلہ کے شانہ بشانہ رہے ۔

ان کی وفات کے روز جنازہ سے پہلے میں اور برادرم محمد ریاض خان سواتی ، مولانا ظفر فیاض اور میاں راشد ان کے گھر گئے تو ان کے اکلوتے بیٹے نے ہمیں بتایا کہ وہ آخر میں بار بار یہ وصیت فرماتے رہے کہ
” مجھے حضرت صوفی صاحب رح کے قریب دفن کرنا ”
اور اللہ نے ان کی یہ آرزو پوری کردی ہے کہ ان کے قریب ہی قبر کے لئے جگہ بن گئی ہے ۔

مولٰی کریم ان کی زندگی کی تمام مساعی جمیلہ کو اپنی بارگاہ اقدس میں شرف قبولیت سے نوازتے ہوئے ان کے درجات بلند فرمائے اور اعلٰی علیین میں ان کا مقام بنائے ، آمین ۔

کل شیئ ھالک الا وجھہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے