’’جام ساقی کو رہا کرو‘‘

’’عدلیہ کو آزاد کرو‘‘
’’جمہوریت کو بحال کرو‘‘
’’آمریت مردہ باد‘‘
’’ریاست کےاندر ریاست مردہ باد‘‘
’’انقلاب زندہ باد‘‘

یہ سب نعرے ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ یہ 1986ء کی بات ہے۔ لاہور کے ریگل چوک میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کیلئے ایک مظاہرہ ہوا جہاں طاہرہ مظہر علی خان دیگر سیاسی قیدیوں کے علاوہ خاص طور پر ’’جام ساقی کو رہا کرو‘‘ کا نعرہ لگوا رہی تھیں۔ یہ جام ساقی کے ساتھ میرا پہلا تعارف تھا۔ مدیحہ گوہر اور فریال گوہر کی والدہ خدیجہ گوہر نے اپنے ہاتھ میں ایک پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پر نیلسن منڈیلا کی تصویر تھی۔ میں اپنے دوست آغا نوید کے کہنے پر اس مظاہرے میں شریک ہوا تھا اورڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنما امداد چانڈیو کی رہائی کے نعرے لگوا رہا تھا جو پابند سلاسل تھے۔

اس مظاہرے کے دوران بارش شروع ہوگئی۔ مظاہرین نے منتشر ہونے کے بجائے مزید شدت کے ساتھ نعرے بازی شروع کردی اورجیسے ہی کوئی بادل گرجتا تو خدیجہ گوہر فضا میں مکا لہرا کر ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگواتیں۔ یہ مظاہرہ ختم ہوا تو میں نے حبیب جالب سے پوچھا کہ جام ساقی کون ہے؟ جالب صاحب نے بتایا کہ جام ساقی ہمارا انقلابی ساتھی ہے اور لاہور کے شاہی قلعے میں اس پر بہت تشدد ہوا ہے۔ شاہی قلعے کا ذکر آیا تو مجھے سمجھ آگئی کہ آغا نوید کی اس مظاہرے میں کیا دلچسپی تھی کیونکہ آغا نوید نے بھی شاہی قلعے میں بہت تشدد جھیلا تھا جس کا ذکر اس کی کتاب ’’دوسرا جنم‘‘ میں بڑی تفصیل سے موجود ہے۔ اس مظاہرے کے کچھ دنوں بعد جام ساقی کئی سال کی قید کے بعد رہا ہوگئے۔ امتیاز عالم کمیونسٹ پارٹی پنجاب کے سیکرٹری جنرل ہوا کرتے تھے۔

انہوں نے جام ساقی کو لاہور کے دورے کی دعوت دی اور لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر جام ساقی کا بہت بڑا استقبال ہوا جس میں پیپلز پارٹی کے بزرگ رہنما شیخ محمد رشید کی ہدایت پر ان کے کارکنوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ پھر ایک دن جام ساقی میرے والد پروفیسر وارث میر کو ملنے ہمارے گھر آئے کیونکہ وہ جیل میں ان کے کالم پڑھا کرتے تھے۔ اس دن میں نے مہمانوں کو چائے پیش کرنے کی ذمہ داری رضا کارانہ طور پر خود ہی سنبھال لی تو میری سادہ دل والدہ بہت خوش ہوئیں۔ جب میں نے چائے کی ٹرے جام ساقی کے سامنے رکھی تو میرے والد نے مجھے پوچھا کہ کیا آپ جانتے ہیں آج ہمارے گھر میں کون آیا ہے؟ میں نے فوراً فخریہ انداز میں کہا کہ میں نے کچھ عرصہ پہلے جام ساقی صاحب کی رہائی کیلئے مظاہرے میں حصہ لیا تھا اور نعرے بھی لگائے تھے۔ میری اس بریکنگ نیوز پر جام ساقی کا چہرہ کھل اٹھا لیکن میرے والد حیران رہ گئے کیونکہ انہیں میری سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں زیادہ پتہ نہیں تھا۔ جام ساقی ہماری سیاسی تاریخ کے ان کرداروں میں سے ایک تھے جنہوں نے ہمیں بتایا کہ ریاست کے اندر ریاست کیا ہوتی ہے، مزاحمت کیا ہوتی ہے اور اس مزاحمت کی کیا کیا قیمت ادا کرنا پڑتی ہے؟

آج کچھ لوگ جمہوریت کو بہت گالیاں دیتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں پارلیمنٹ امیر لوگوں کی لونڈی بن چکی ہے۔ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس ملک میں پارلیمنٹ امیروں کی لونڈی کیسے بنی تو جام ساقی کے حالات زندگی کا مطالعہ کر لیجئے۔ جام ساقی کی زندگی پر احمد سلیم اور نزہت عباس کی کتاب کچھ عرصہ قبل جمہوری پبلی کیشنز نے شائع کی تھی۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ جام ساقی ایک غریب اسکول ماسٹر کے فرزند تھے۔ انہوں نے غربت میں آنکھ کھولی اور غربت کے خاتمے کے خواب دیکھنے لگے۔ زمانہ طالب علمی میں حیدرآباد اسٹوڈنٹس فیڈریشن بنائی اور دیواروں پر یہ نعرے لکھا کرتے تھے۔

’’کشمیر کشمیریوں کا ہے۔ سیٹو سینٹو نامنظور‘‘۔ پھر انہوں نے سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اسی دور میں انہیں پہلی دفعہ غدار قرار دیکر گرفتار کرلیا گیا۔ جیل میں ان کی ملاقات مزید سیاسی قیدیوں سے ہوئی اور یوں وہ اس قافلے میں شامل ہوگئے جس کا سفر حسن ناصر نے شروع کیا تھا۔ حسن ناصر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رہنما تھے۔ اس ملک میں کمیونسٹ پارٹی کو وطن دشمن قرار دیکر کالعدم قرار دیدیا گیا حالانکہ کمیونسٹ پارٹی نے قیام پاکستان کی بھرپور حمایت کی تھی۔ عبدالرئوف ملک نے اپنی کتاب ’’سرخ سیاست‘‘ میں بتایا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے 1944ء میں کھلم کھلا قائداعظم کی حمایت شروع کردی تھی کیونکہ وہ برطانوی تسلط سے آزادی چاہتے تھے لیکن جب پاکستان بن گیا تو فوجی حکمرانوں نے کمیونسٹوں کو غدار قرار دیدیا۔

راولپنڈی سازش کیس آغاز تھا اور انجام کمیونسٹ پارٹی پر پابندی تھی۔ پھر اس پارٹی نے نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے کام شروع کیا تو حسن ناصر کو گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں لاہور کے شاہی قلعے میں اذیتیں دیکر قتل کردیا گیا اور لاش غائب کردی گئی۔ جام ساقی اس حسن ناصر کے دیوانے تھے اور ہر سال ان کی برسی منایا کرتے تھے۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں بھی ان پر غداری کے مقدمے بنائے گئے۔ 1970ء میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی جام ساقی نے سخت مخالفت کی۔ اسی زمانے میں انہوں نے لاہور میں ایک ملک گیر طلبہ کنونشن منعقد کیا جس میں اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیاگیا۔ مقصد پاکستان بچانا تھا لیکن پاکستان ٹوٹ گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آئی تو سندھ کے وزیراعلیٰ ممتاز بھٹو نے جام ساقی کو گرفتار کرا دیا۔

رہائی کے بعد جام ساقی کوئٹہ چلے گئے جہاں ان کے دوست غوث بخش بزنجو گورنر تھے لیکن کچھ عرصے میںریاست کےاندر ریاست کی مہربانی سے بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم ہوگئی اور اس پارٹی پر سپریم کورٹ نے پابندی لگا دی۔ جنرل ضیاء کا دور آیا تو جام ساقی گرفتاری سے بچنے کیلئے روپوش ہوگئے لیکن آخرکا ر گرفتار ہوگئے۔ شاہی قلعے میں ان پر اتنا تشدد ہوا کہ ان کی موت کی افواہ پھیل گئی اور ان کی اہلیہ سکھاں نے یہ افواہ سن کر کنویں میں چھلانگ مار کر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ کمیونسٹ پارٹی کے اندر اختلافات کے باعث جام ساقی نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی لیکن جنرل ضیاء کے دور میں غیر جماعتی انتخابات کے ذریعہ جو سیاسی کلچر پروان چڑھایا گیا اس کے سامنے جام ساقی بے بس تھے۔

انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور آخری دم تک اپنے نظریات پر قائم رہے۔ 5مارچ کو جام ساقی اس دنیا سے کوچ کرگئے لیکن ساہیوال جیل میں مہر عبدالستار کی صورت میں ایک جام ساقی آج بھی زندہ ہے جو مزارعین کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے کے جرم میں 36مقدمات بھگت رہا ہے۔ مہر عبدالستار کا مقدمہ سپریم کورٹ لیجانے والی عاصمہ جہانگیر بھی اس دنیا میں نہیں رہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جام ساقی آج بھی جیل میں ہے اور میں ریگل چوک پر کھڑا یہ نعرے لگارہا ہوں ’’جام ساقی کو رہا کرو‘‘ ’’عدلیہ کو آزاد کرو‘‘ ’’آمریت مردہ باد‘‘ ’’انقلاب زندہ باد‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے