انتخابات2018: 5 بڑی جماعتوں کی پوزیشن کیا ہوگی؟

[pullquote]1۔ پاکستان مسلم لیگ ن[/pullquote]
نواز شریف ایک ایسے خوش قسمت سیاستدان ہیں جن سے 2018 کے الیکشن میں کسی نے یہ نہیں پوچھنا کہ آپ نے پچھلے پانچ سال کیا کیا۔ ان کے بیوقوف دشمن انہیں یکطرفہ طور پر انتقام کا نشانہ بناکر الیکشن سے چند مہینے پہلے مظلومیت کے رنگ میں رنگ چکے ہیں۔ میاں صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر پنجاب میں باآسانی سوئپ کریں گے لیکن انکی کوشش ہے کہ انہیں دو تہائی اکثریت ملے اور اسکے لئے انکی اڑان اب پختونخوا اور بلوچستان کی طرف ہوگی۔ 2018 میں انکے امیدوار شہباز شریف جبکہ 2023 میں مریم نواز ہوں گی!

[pullquote]2۔ پاکستان پیپلزپارٹی[/pullquote]
آصف علی زرداری ناصرف سیاست کو سمجھتے ہیں بلکہ خرید و فروخت اور مکر و فریب میں بھی پاکستان کی موجودہ سیاسی افق پر انکا کوئی ثانی نہیں ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ جب تک تحریک انصاف زندہ ہے مرکز میں انکا کوئی امکان نہیں بنتا۔ چنانچہ انہوں نے ان حالات میں اداروں سے ہاتھ ملاکر اپنی جماعت کا مستقبل محفوظ کرلیا ہے۔ 2018 میں انکی ساری توجہ سندھ میں ہوگی۔ 2023 میں جب ممکنہ طور پر تحریک انصاف کا خاتمہ ہوچکا ہوگا، وہ مرکز کی سیاست میں بلاول بھٹو کے زریعے دوبارہ واپس آنے کی کوشش کریں گے۔

[pullquote]3۔ تحریک انصاف[/pullquote]
تحریک انصاف کی سیاسی زندگی میں 2013 عروج کا سال تھا، جس نے اب کبھی واپس نہیں آنا۔ عمران خان نے پچھلے پورے پانچ سال پنجاب پر محنت کی جسکے نتیجے میں وہ تقریبا ہر حلقے میں دوسری نمبر پر تو کھڑے ہیں مگر جیتنا انہوں نے کہیں سے بھی نہیں ہے۔ پنجاب کی اس جستجو میں وہ اپنی سپورٹ بیس یعنی پختونخوا اور کراچی کو گنوا چکے ہیں۔ عمران خان کا ہر بیانیہ پٹ چکا ہے، تبدیلی کا نعرہ، خوف کی سیاست کا خاتمہ، شفاف لیڈر اور احتساب کسی بات میں اب کوئی جان نہیں رہی۔ 2018 میں انکی سیاست 29 سے بمشکل درجن بھر نشستوں تک محدود ہوجانی ہے جبکہ 2023 میں وہ مکمل طور پر اصغر خان بن چکے ہونگے۔ ہمارے ایک محترم دوست کے مطابق تحریک انصاف "سیاسی داعش” ہے۔ جس تیزی سے داعش آئی اور گئی، پی ٹی آئی بھی اسی تیزی سے تاریخ کے گمشدہ اوراق تک محدود ہوجائے گی۔

[pullquote]4۔ متحدہ قومی موومنٹ[/pullquote]
ایسی جماعتیں جو خود اپنے بانی و مربی کو اٹھاکر باہر پھینک دیں، ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوسکتا۔ ایم کیو ایم پاکستان الطاف حسین کا برین چائلڈ تھا، وہ خود مولانا مودودی کی طرح ریٹارمنٹ لیکر الگ ہوجاتے تو دوسری بات تھی۔ مگر جس طرح انکے اپنے جانثاروں نے انہیں دھوکہ دیا ہے، اسکے بعد اس جماعت کا برقرار رہنا ناممکن ہے۔ فاروق ستار ہوں یا عامر خان، جس نے اپنے قائد سے وفا نہیں کی، عوام ان سے وفا کیسے کرے؟ 2018 میں کراچی کھلا ہوگا، یہاں جو محنت کرے گا، وہ کامیاب ہوگا سوائے ایم کیو ایم کے۔ پانچ سات نشستیں شاید وہ لے لیں مگر اس سے زیادہ نہیں۔

[pullquote]5۔ متحدہ مجلس عمل[/pullquote]
پختونخوا میں متحدہ مجلس عمل کے امکانات انتہائی روشن ہیں اور عین ممکن ہے کہ وہ 2002 کی طرح ایک بار پھر ملک کی تیسری سب سے بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئے۔ پختونخوا میں یہ لوگ ن لیگ اور اے این پی کیساتھ ملکر ہر جگہ صونامی کے آگے بندھ باندھتے نظر آئیں گے۔ مولانا فضل الرحمان اور سراج الحق کی خوبی یہ ہے کہ دونوں ہی سیاست کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل اگر اپنی ہوا چلاسکی تو عین ممکن ہے کہ وہ کراچی میں بھی سیاسی خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 2002 کو دہرا سکے۔ بلدیہ، بنارس، سوسائٹی، گلشن، اور ڈیفنس کے حلقوں میں انکے امکانات موجود ہیں۔ بلوچستان میں بھی ایم ایم اے کی مضبوط پوزیشن ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے