فیس بُک آپ کی جاگیر نہیں

بلا جواز تنقید اورپھراس تنقید پرتشدد اختلاف کی ایک بڑی وجہ ہےاسی اختلاف سے مخالفت کا آغاز ہوتا ہے اور پھر یہی مخالفت دشمنی کو جنم دیتی ہے۔ یہ دشمنی حد سے بڑھتی ہے تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے اور معاشرے میں عدم استحکام سے وہاں کے رہنے والے غیر محفوظ ہو جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں ان لوگوں کی اکثریت پائی جاتی ہے جن کی نظریں ہمیشہ منفی چیزوں پر ہی فوکس کرتی ہیں اچھی بھلی چیزوں پر بھی بلا وجہ اور بلا جواز تنقید کریں گے ۔ ہم اپنے خیالات کی تبلیغ کرنے میں کچھ زیادہ ہی دانش ور واقع ہوئے ہیں لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ ہم نہ اختلاف کو سمجھتے ہیں اور نہ کسی کی رائے کا احترام کرنا ہمیں آتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ سوچتے ہیں کہ جو ہم کہتے ہیں وہ حرفِ آخر ہے اور ظاہر ہے حرفِ آخر کو کوئی کلام نہیں ہوتا اس لئے پھر جائز بات کو بھی موجب اختلاف بنا کر دوسروں کو وہ سمجھانے لگ جاتے ہیں جس کا ادراک کا زیرو پرسنٹ ہماری اپنی سمجھ دانی کے نو فٹ دور سے بھی نہیں گزرا ہوتا ۔
بر سرِ مطلب آتے ہیں تو جناب فیس بک اکاؤنٹ آپ نے بنا لیا تو عرض بھی سن لیجئے۔ سب کو معلوم ہے کہ آپ ایک سیاسی نقطہ نظر رکھتے ہیں اورظاہر ہےایک مذہبی پسِ منظر اور کسی خاص سوچ کے ترجمان بھی ہوں گے۔ لیکن آپ نہ تو اپنا سیاسی نقطہ نظر کسی پر مسلط کر سکتے ہیں اور نہ اپنی سوچ اور مذہبی خیالات کو جبراً کسی کو پڑھا سکتے ہیں اگر آپ نے اپنے حصے کا کام کرنا ہی ہے تو پہلے سوال کرنے والے کے سوال کا آپ کو علم ہونا چاہئے کہ وہ آپ سے کیا پوچھ رہا ہے یا پوچھنا چاہ رہا ہے ، آپ نے معاشرے میں رونما ہونے والے کسی واقعہ پر اپنا مؤقف پیش کیا یا کسی کی پوسٹ پر اپنی کوئی رائے دی یاکسی مسئلہ پر اپنا نقطہ نظر بیان کیا ، جس کو کوئی دوسرا آپ کی طرح بیان نہیں کر سکا نہ کسی اور کا مؤقف یا اس قسم کا نقطہ نظر سامنےآیا تو اس کا مطلب یہ تو نہیں ہوا کہ آپ اس کو گالیاں دینا شروع کر دیں یا غیر اخلاقی زبان و القاب سے اس کو نوازنا شروع کر دیں بھائی آپ کی ذرہ نوازی کہ کسی مسئلے پر آپ کی اچھی رائے سامنے آئی ۔ آپ کی نظر میں اچھی رائے کسی مختلف فکر رکھنے والے شخص کے سامنے بھی اچھی ہو ضروری نہیں اس لئے وہ آپ سے اختلاف کرے گا اور ضرور کرے گا اب آپ بجائے اس کو جواب دینے یا دلیل سےمطمئن کرنے، چڈی پہن کر گالیوں کے گندھے جوہڑ میں غوطے لگانا شروع کر دیں تو آپ کو اپنی شخصیت اور کردار پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔

آپ مردوں کی بات کریں یاعورت کا دامن چٹکی میں پکڑ یں ،جب تک اپنے زانو اور عورت کی رانوں میں فرق ملحوظ خاطر نہیں رکھیں گے تو سوال تو پوچھا جائے گا ۔ فیس بُک آپ کی جاگیر نہیں اور نہ یہاں لوگ آپ کی مرضی کے تابع۔ یہاں آپ جو لکھیں گے اس پر بحث ہو گی ، تنقید ہو گی اور اختلاف بھی ہو گا۔ آپ چاہتے ہیں آپ کی رائے سے کوئی اختلاف نہ کرے آپ کے دئیے گئے جوابوں سے قاریئین سوال نہ کریں تو تشریف کی ٹوکری فیس بک کی اس دیوار سے اٹھا کر کسی اچھے سے نفسیاتی معالج کے پاس لے جائیے یا اپنے آ س پاس کوئی پیر پیرنی ہی دیکھ لیجئے شاید کے اس کی دو چار پھونکیں آپ کے دماغ سے ایسی دانش کا خمار اتار نے میں مدد کر سکیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے